شارق کیفی کے تمام مواد

39 غزل (Ghazal)

    کون کہے معصوم ہمارا بچپن تھا

    کون کہے معصوم ہمارا بچپن تھا کھیل میں بھی تو آدھا آدھا آنگن تھا کانچ کی چوڑی لے کر میں جب تک لوٹا اس کے ہاتھوں میں سونے کا کنگن تھا جو بھی ملا سب بانٹ لیا تھا آپس میں ایک تھے ہم اور ایک ہی اپنا برتن تھا عکس نہیں تھا رنگوں کی بوچھاریں تھیں روپ سے اس کے سہما ہوا ہر درپن تھا رو دھو ...

    مزید پڑھیے

    طرح طرح سے مرا دل بڑھایا جاتا ہے

    طرح طرح سے مرا دل بڑھایا جاتا ہے مگر کہے سے کہیں مسکرایا جاتا ہے ابھی میں سوچ رہا تھا کہ کچھ کہوں تجھ سے کہ دیکھتا ہوں ترا گھر سجایا جاتا ہے گناہ گاروں میں بیٹھے تو انکشاف ہوا خدا سے اب بھی بہت خوف کھایا جاتا ہے نئے نئے وہ اداکار جانتے ہی نہ تھے کہ پردہ گرتے ہی سب بھول جایا جاتا ...

    مزید پڑھیے

    تن سے جب تک سانس کا رشتہ رہے گا

    تن سے جب تک سانس کا رشتہ رہے گا میرے اشکوں میں ترا حصہ رہے گا دور تک کوئی شناسا ہو نہیں ہو بھیڑ میں اچھا مگر لگتا رہے گا ایسے چھٹکارا نہیں دینا ہے اس کو میں اگر مر جاؤں تو کیسا رہے گا طے تو ہے الگاؤ بس یہ سوچنا ہے کون سی رت میں یہ دکھ اچھا رہے گا خود سے میری صلح ممکن ہی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی کچھ بھی کہتا رہے سب خاموشی سے سن لیتا ہے

    کوئی کچھ بھی کہتا رہے سب خاموشی سے سن لیتا ہے اس نے بھی اب گہری گہری سانسیں لینا سیکھ لیا ہے پیچھے ہٹنا تو چاہا تھا پر ایسے بھی نہیں چاہا تھا اپنی طرف بڑھنے کے لیے بھی اس کی طرف چلنا پڑتا ہے جب تک ہو اور جیسے بھی ہو دور رہو اس کی نظروں سے اتنا پرانا ہے کہ یہ رشتہ پھر سے نیا بھی ہو ...

    مزید پڑھیے

    یہ کچھ بدلاؤ سا اچھا لگا ہے

    یہ کچھ بدلاؤ سا اچھا لگا ہے ہمیں اک دوسرا اچھا لگا ہے سمجھنا ہے اسے نزدیک جا کر جسے مجھ سا برا اچھا لگا ہے یہ کیا ہر وقت جینے کی دعائیں یہاں ایسا بھی کیا اچھا لگا ہے سفر تو زندگی بھر کا ہے لیکن یہ وقفہ سا ذرا اچھا لگا ہے مری نظریں بھی ہیں اب آسماں پر کوئی محو دعا اچھا لگا ...

    مزید پڑھیے

تمام

21 نظم (Nazm)

    کسی تانگے میں پھر سامان رکھا جا رہا ہے

    کسی کی آنسوؤں سے تر بتر داڑھی کے کچھ ٹوٹے ہوئے بال آج بھی ممکن ہے مل جائیں بڑے صندوق میں رکھے مرے بد رنگ سے اک سویٹر پر اسی دن کا کوئی ہم شکل دن ہے کسی تانگے میں پھر سامان رکھا جا رہا ہے وہی دہلیز ہے لیکن مرے داڑھی نہیں ہے مرا لڑکا گلے سے لگ کے میرے تھپک کر پیٹھ میری بزرگوں کی طرح ...

    مزید پڑھیے

    کتیا

    خالد جاوید کے نام مگر بلی کو رونا چاہیئے تھا مجھے ہوشیار کر کے ہی اس رات سونا چاہیئے تھا کہ وہ گھر میں ہے وہ یعنی مری موت اسے کچھ بھی نہیں کرنا پڑا مجھے تو صرف لمحے بھر کی اس شرمندگی نے مار ڈالا وہ میرے حال پر منہ پھاڑ کر جب ہنس رہی تھی کہ جب وہ سامنے آئی مری آنکھوں میں خوابوں کی ...

    مزید پڑھیے

    سرکس میں نوکری کا آخری دن

    لے چبا یہ سر جو اب جبڑوں میں ہے تیرے اگر تو واقعی میں شیر ہے تو شیر بن کر آج دکھلا دے مجھے جوکر سمجھتا تھا ارے میں تو فقط اس پیٹ کی خاطر ہنسانے کے لیے سب کو تیرے جبڑوں میں سر دینے سے پہلے بھاگ جاتا تھا مجھے اس کھیل کی تنخواہ ملتی تھی یہی کردار سرکس میں مرے حصے میں آیا تھا مگر میں آج ...

    مزید پڑھیے

    بہروپیا

    انوکھا اور نیا غم شرط ہے کوئی تمہارے خودکشی کرنے کی تو پھر بھول جاؤ یہاں تو بس وہی غم ہیں پرانے غم کہ جن سے کام یہ دنیا چلاتی آ رہی ہے مگر تم ہو کہ ہنس دیتے ہو ان پر اگر یہ غم تمہیں غم ہی نہیں لگتے کہ محبوبہ تمہاری بے وفا ہے کہ وہ بچہ چھٹی جس کی منانا تھی تمہیں آج ناک میں ہے آکسیجن ...

    مزید پڑھیے

    وہ بکرا پھر اکیلا پڑ گیا ہے

    وہ بکرا پھر اکیلا پڑ گیا ہے کہ مرا ہاتھ بھی ڈونگے میں اچھی بوٹیوں کو ڈھونڈتا ہے وہی بکرا کھڑا رکھا گیا ہے جس کو کونے میں نگاہوں سے چھپا کر وہ جس کی زندگی ہے منحصر اس بات پر کہ ہم کھائیں گے کتنا اور کتنا چھوڑ دیں گے بس یوں ہی اپنی پلیٹوں میں ابھی کچھ دیر پہلے میں کھڑا تھا پاس جس ...

    مزید پڑھیے

تمام