شارق کیفی کی غزل

    کون کہے معصوم ہمارا بچپن تھا

    کون کہے معصوم ہمارا بچپن تھا کھیل میں بھی تو آدھا آدھا آنگن تھا کانچ کی چوڑی لے کر میں جب تک لوٹا اس کے ہاتھوں میں سونے کا کنگن تھا جو بھی ملا سب بانٹ لیا تھا آپس میں ایک تھے ہم اور ایک ہی اپنا برتن تھا عکس نہیں تھا رنگوں کی بوچھاریں تھیں روپ سے اس کے سہما ہوا ہر درپن تھا رو دھو ...

    مزید پڑھیے

    طرح طرح سے مرا دل بڑھایا جاتا ہے

    طرح طرح سے مرا دل بڑھایا جاتا ہے مگر کہے سے کہیں مسکرایا جاتا ہے ابھی میں سوچ رہا تھا کہ کچھ کہوں تجھ سے کہ دیکھتا ہوں ترا گھر سجایا جاتا ہے گناہ گاروں میں بیٹھے تو انکشاف ہوا خدا سے اب بھی بہت خوف کھایا جاتا ہے نئے نئے وہ اداکار جانتے ہی نہ تھے کہ پردہ گرتے ہی سب بھول جایا جاتا ...

    مزید پڑھیے

    تن سے جب تک سانس کا رشتہ رہے گا

    تن سے جب تک سانس کا رشتہ رہے گا میرے اشکوں میں ترا حصہ رہے گا دور تک کوئی شناسا ہو نہیں ہو بھیڑ میں اچھا مگر لگتا رہے گا ایسے چھٹکارا نہیں دینا ہے اس کو میں اگر مر جاؤں تو کیسا رہے گا طے تو ہے الگاؤ بس یہ سوچنا ہے کون سی رت میں یہ دکھ اچھا رہے گا خود سے میری صلح ممکن ہی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی کچھ بھی کہتا رہے سب خاموشی سے سن لیتا ہے

    کوئی کچھ بھی کہتا رہے سب خاموشی سے سن لیتا ہے اس نے بھی اب گہری گہری سانسیں لینا سیکھ لیا ہے پیچھے ہٹنا تو چاہا تھا پر ایسے بھی نہیں چاہا تھا اپنی طرف بڑھنے کے لیے بھی اس کی طرف چلنا پڑتا ہے جب تک ہو اور جیسے بھی ہو دور رہو اس کی نظروں سے اتنا پرانا ہے کہ یہ رشتہ پھر سے نیا بھی ہو ...

    مزید پڑھیے

    یہ کچھ بدلاؤ سا اچھا لگا ہے

    یہ کچھ بدلاؤ سا اچھا لگا ہے ہمیں اک دوسرا اچھا لگا ہے سمجھنا ہے اسے نزدیک جا کر جسے مجھ سا برا اچھا لگا ہے یہ کیا ہر وقت جینے کی دعائیں یہاں ایسا بھی کیا اچھا لگا ہے سفر تو زندگی بھر کا ہے لیکن یہ وقفہ سا ذرا اچھا لگا ہے مری نظریں بھی ہیں اب آسماں پر کوئی محو دعا اچھا لگا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ قدم اور مجھے جسم کو ڈھونا ہے یہاں

    کچھ قدم اور مجھے جسم کو ڈھونا ہے یہاں ساتھ لایا ہوں اسی کو جسے کھونا ہے یہاں بھیڑ چھٹ جائے گی پل میں یہ خبر اڑتے ہی اب کوئی اور تماشا نہیں ہونا ہے یہاں یہ بھنور کون سا موتی مجھے دے سکتا ہے بات یہ ہے کہ مجھے خود کو ڈبونا ہے یہاں کیا ملا دشت میں آ کر ترے دیوانے کو گھر کے جیسا ہی اگر ...

    مزید پڑھیے

    کہاں سوچا تھا میں نے بزم آرائی سے پہلے

    کہاں سوچا تھا میں نے بزم آرائی سے پہلے یہ میری آخری محفل ہے تنہائی سے پہلے بس اک سیلاب تھا لفظوں کا جو رکتا نہیں تھا یہ ہلچل سطح پہ رہتی ہے گہرائی سے پہلے بہت دن ہوش مندوں کے کہے کا مان رکھا مگر اب مشورہ کرتا ہوں سودائی سے پہلے فقط رنگوں کے اس جھرمٹ کو میں سچ مان لوں کیا وہ سب ...

    مزید پڑھیے

    سفر سے مجھ کو بد دل کر رہا تھا

    سفر سے مجھ کو بد دل کر رہا تھا بھنور کا کام ساحل کر رہا تھا وہ سمجھا ہی کہاں اس مرتبے کو میں اس کو دکھ میں شامل کر رہا تھا ہماری فتح تھی مقتول ہونا یہی کوشش تو قاتل کر رہا تھا کوئی تو تھا مرے ہی قافلے میں جو میرا کام مشکل کر رہا تھا وہ ٹھکرا کر گیا اس دور میں جب میں جو چاہوں وہ ...

    مزید پڑھیے

    دنیا شاید بھول رہی ہے

    دنیا شاید بھول رہی ہے چاہت کچھ اونچا سنتی ہے جب چادر سر سے اوڑھی ہے موت سرہانے پر دیکھی ہے اتنا سچا لگتا ہے وہ دیکھو تو حیرت ہوتی ہے قرب کی ساعت تو یاروں کو چپ کرنے میں گزر جاتی ہے آؤ گلے مل کر یہ دیکھیں اب ہم میں کتنی دوری ہے فیصلے اوروں کے کرتا ہوں اپنی سزا کٹتی رہتی ہے یگ ...

    مزید پڑھیے

    ہونے سے مرے فرق ہی پڑتا تھا بھلا کیا

    ہونے سے مرے فرق ہی پڑتا تھا بھلا کیا میں آج نہ جاگا تو سویرا نہ ہوا کیا سب بھیگی رتیں نیند کے اس پار ہیں شاید لگتی ہے ذرا آنکھ تو آتی ہے ہوا کیا ہم کھوج میں جس کی ہیں پریشان ازل سے بیمار کی آنکھوں نے وہ در ڈھونڈ لیا کیا مقتول کو بانہوں میں لیے بیٹھا رہوں کیوں اس جرم سے لینا ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4