شارق کیفی کی غزل

    نگاہ نیچی ہوئی ہے میری

    نگاہ نیچی ہوئی ہے میری یہ ٹوٹنے کی گھڑی ہے میری پلٹ پلٹ کر جو دیکھتا ہوں کوئی صدا ان سنی ہے میری یہ کام دونوں طرف ہوا ہے اسے بھی عادت پڑی ہے میری تمام چہروں کو ایک کر کے عجیب صورت بنی ہے میری وہیں پہ لے جائے گی یہ مٹی جہاں سواری کھڑی ہے میری

    مزید پڑھیے

    سیانے تھے مگر اتنے نہیں ہم

    سیانے تھے مگر اتنے نہیں ہم خموشی کی زباں سمجھے نہیں ہم انا کی بات اب سننا پڑے گی وہ کیا سوچے گا جو روٹھے نہیں ہم ادھوری لگ رہی ہے جیت اس کو اسے ہارے ہوئے لگتے نہیں ہم ہمیں تو روک لو اٹھنے سے پہلے پلٹ کر دیکھنے والے نہیں ہم بچھڑنے کا ترے صدمہ تو ہوگا مگر اس خوف کو جیتے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کہیں نہ تھا وہ دریا جس کا ساحل تھا میں

    کہیں نہ تھا وہ دریا جس کا ساحل تھا میں آنکھ کھلی تو اک صحرا کے مقابل تھا میں حاصل کر کے تجھ کو اب شرمندہ سا ہوں تھا اک وقت کہ سچ مچ تیرے قابل تھا میں کس احساس جرم کی سب کرتے ہیں توقع اک کردار کیا تھا جس میں قاتل تھا میں کون تھا وہ جس نے یہ حال کیا ہے میرا کس کو اتنی آسانی سے حاصل ...

    مزید پڑھیے

    جھوٹ پر اس کے بھروسا کر لیا

    جھوٹ پر اس کے بھروسا کر لیا دھوپ اتنی تھی کہ سایا کر لیا اب ہماری مشکلیں کچھ کم ہوئیں دشمنوں نے ایک چہرا کر لیا ہاتھ کیا آیا سجا کر محفلیں اور بھی خود کو اکیلا کر لیا ہارنے کا حوصلہ تو تھا نہیں جیت میں دشمن کی حصہ کر لیا منزلوں پر ہم ملیں یہ طے ہوا واپسی میں ساتھ پکا کر ...

    مزید پڑھیے

    بڑا ہے دکھ سو حاصل ہے یہ آسانی مجھے

    بڑا ہے دکھ سو حاصل ہے یہ آسانی مجھے کہ ہمت ہی نہیں کچھ یاد کرنے کی مجھے چلا آتا ہے چپکے سے رضائی میں مری بری لگتی ہے سورج کی یہ بے باکی مجھے چھپاتا پھر رہا ہوں خود کو میں کس سے یہاں اگر پہچاننے والا نہیں کوئی مجھے گزر جائے گی ساری زندگی امید میں نہ جینے دے گی یہ جینے کی تیاری ...

    مزید پڑھیے

    برسوں جنوں صحرا صحرا بھٹکاتا ہے

    برسوں جنوں صحرا صحرا بھٹکاتا ہے گھر میں رہنا یوں ہی نہیں آ جاتا ہے پیاس اور دھوپ کے عادی ہو جاتے ہیں ہم جب تک دشت کا کھیل سمجھ میں آتا ہے عادت تھی سو پکار لیا تم کو ورنہ اتنے کرب میں کون کسے یاد آتا ہے موت بھی اک حل ہے تو مسائل کا لیکن دل یہ سہولت لیتے ہوئے گھبراتا ہے اک تم ہی تو ...

    مزید پڑھیے

    نہیں میں حوصلہ تو کر رہا تھا

    نہیں میں حوصلہ تو کر رہا تھا ذرا تیرے سکوں سے ڈر رہا تھا اچانک جھینپ کر ہنسنے لگا میں بہت رونے کی کوشش کر رہا تھا بھنور میں پھر ہمیں کچھ مشغلے تھے وہ بیچارہ تو ساحل پر رہا تھا لرزتے کانپتے ہاتھوں سے بوڑھا چلم میں پھر کوئی دکھ بھر رہا تھا اچانک لو اٹھی اور جل گیا میں بجھی کرنوں ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ آتا تو نہیں کچھ پہ تقاضہ کر آئیں

    ہاتھ آتا تو نہیں کچھ پہ تقاضہ کر آئیں اور اک بار گلی کا تری پھیرا کر آئیں نیند کے واسطے ویسے بھی ضروری ہے تھکن پیاس بھڑکائیں کسی سائے کا پیچھا کر آئیں لطف دیتی ہے مسیحائی پر اتنا بھی نہیں جوش میں اپنے ہی بیمار کو اچھا کر آئیں لوگ محفل میں بلاتے ہوئے کتراتے تھے اب نہیں دھڑکا یہ ...

    مزید پڑھیے

    انتہا تک بات لے جاتا ہوں میں

    انتہا تک بات لے جاتا ہوں میں اب اسے ایسے ہی سمجھاتا ہوں میں کچھ ہوا کچھ دل دھڑکنے کی صدا شور میں کچھ سن نہیں پاتا ہوں میں بن کہے آؤں گا جب بھی آؤں گا منتظر آنکھوں سے گھبراتا ہوں میں یاد آتی ہے تری سنجیدگی اور پھر ہنستا چلا جاتا ہوں میں فاصلہ رکھ کے بھی کیا حاصل ہوا آج بھی اس کا ...

    مزید پڑھیے

    کم سے کم دنیا سے اتنا مرا رشتہ ہو جائے

    کم سے کم دنیا سے اتنا مرا رشتہ ہو جائے کوئی میرا بھی برا چاہنے والا ہو جائے اسی مجبوری میں یہ بھیڑ اکٹھا ہے یہاں جو ترے ساتھ نہیں آئے وہ تنہا ہو جائے شکر اس کا ادا کرنے کا خیال آئے کسے ابر جب اتنا گھنا ہو کہ اندھیرا ہو جائے ہاں نہیں چاہئے اس درجہ محبت تیری کہ مرا سچ بھی ترے جھوٹ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4