رات بے پردہ سی لگتی ہے مجھے
رات بے پردہ سی لگتی ہے مجھے
خوف نے ایسی نظر دی ہے مجھے
آہ اس معصوم کو کیسے بتاؤں
کیوں اسے کھونے کی جلدی ہے مجھے
جوش میں ہیں اس قدر تیماردار
ٹھیک ہوتے شرم آتی ہے مجھے
اک لطیفہ جو سمجھ میں بھی نہ آئے
اس پہ ہنسنا کیوں ضروری ہے مجھے
منتشر ہونے لگے سارے خیال
نیند بس آنے ہی والی ہے مجھے
اب جنوں کم ہونے والا ہے مرا
خیر اتنی تو تسلی ہے مجھے
لاکھ مدھم ہو تری چاہت کی لو
روشنی اتنی ہی کافی ہے مجھے
گرد ہے بارود کی سر میں تو کیا
موت اک افواہ لگتی ہے مجھے