شارق کیفی کی غزل

    یہ سچ ہے دنیا بہت حسیں ہے

    یہ سچ ہے دنیا بہت حسیں ہے مگر مری عمر کی نہیں ہے تری جگہ کون لے سکے گا تو میرا پہلا تماش بیں ہے مجھی پہ ہے سوچنے کا ذمہ اسے تو ہر بات کا یقیں ہے بجھا ہی رہتا ہے دل ہمارا نہ جانے کس دھوپ کا نگیں ہے ہے مجھ پہ الزام خود ستائش اور اس میں کچھ جھوٹ بھی نہیں ہے نہ رکھ بہت ہوش کی توقع کہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ دن بھی تھے کہ ان آنکھوں میں اتنی حیرت تھی

    وہ دن بھی تھے کہ ان آنکھوں میں اتنی حیرت تھی تمام بازی گروں کو مری ضرورت تھی وہ بات سوچ کے میں جس کو مدتوں جیتا بچھڑتے وقت بتانے کی کیا ضرورت تھی پتا نہیں یہ تمنائے قرب کب جاگی مجھے تو صرف اسے سوچنے کی عادت تھی خموشیوں نے پریشاں کیا تو ہوگا مگر پکارنے کی یہی صرف ایک صورت ...

    مزید پڑھیے

    اک دن خود کو اپنے پاس بٹھایا ہم نے

    اک دن خود کو اپنے پاس بٹھایا ہم نے پہلے یار بنایا پھر سمجھایا ہم نے خود بھی آخر کار انہی وعدوں سے بہلے جن سے ساری دنیا کو بہلایا ہم نے بھیڑ نے یوں ہی رہبر مان لیا ہے ورنہ اپنے علاوہ کس کو گھر پہنچایا ہم نے موت نے ساری رات ہماری نبض ٹٹولی ایسا مرنے کا ماحول بنایا ہم نے گھر سے ...

    مزید پڑھیے

    پہلی بار وہ خط لکھا تھا

    پہلی بار وہ خط لکھا تھا جس کا جواب بھی آ سکتا تھا خود افواہ اڑاتا تھا میں خود ہی یقیں بھی کر لیتا تھا اس سے کہو اس روپ میں آئے جیسا پہلی نظر میں لگا تھا بھول چکا تھا دے کے صدا میں تب جنگل کا جواب آیا تھا ہم تو پرائے تھے اس گھر میں ہم سے کون خفا ہوتا تھا ٹوٹ گئے اس کوشش میں ...

    مزید پڑھیے

    آئنے کا ساتھ پیارا تھا کبھی

    آئنے کا ساتھ پیارا تھا کبھی ایک چہرے پر گزارا تھا کبھی آج سب کہتے ہیں جس کو ناخدا ہم نے اس کو پار اتارا تھا کبھی یہ مرے گھر کی فضا کو کیا ہوا کب یہاں میرا تمہارا تھا کبھی تھا مگر سب کچھ نہ تھا دریا کے پار اس کنارے بھی کنارا تھا کبھی کیسے ٹکڑوں میں اسے کر لوں قبول جو مرا سارے کا ...

    مزید پڑھیے

    سونا آنگن نیند میں ایسے چونک اٹھا ہے

    سونا آنگن نیند میں ایسے چونک اٹھا ہے سوتے میں بھی جیسے کوئی سسکی لیتا ہے گھر میں تو اس ماحول کا میں عادی ہوں لیکن بازاروں کی ویرانی سے دم گھٹتا ہے مدت سے میں سوچ رہا تھا اب سمجھا ہوں جیب اور آنکھ کے خالی پن میں کیا رشتہ ہے اتنے لوگ مجھے رخصت کرنے آئے ہیں گھر واپس جانا بھی تماشا ...

    مزید پڑھیے

    لوگ سہہ لیتے تھے ہنس کر کبھی بے زاری بھی

    لوگ سہہ لیتے تھے ہنس کر کبھی بے زاری بھی اب تو مشکوک ہوئی اپنی ملن ساری بھی وار کچھ خالی گئے میرے تو پھر آ ہی گئی اپنے دشمن کو دعا دینے کی ہشیاری بھی عمر بھر کس نے بھلا غور سے دیکھا تھا مجھے وقت کم ہو تو سجا دیتی ہے بیماری بھی کس طرح آئے ہیں اس پہلی ملاقات تلک اور مکمل ہے جدا ...

    مزید پڑھیے

    خواب ویسے تو اک عنایت ہے

    خواب ویسے تو اک عنایت ہے آنکھ کھل جائے تو مصیبت ہے جسم آیا کسی کے حصے میں دل کسی اور کی امانت ہے جان دینے کا وقت آ ہی گیا اس تماشے کے بعد فرصت ہے عمر بھر جس کے مشوروں پہ چلے وہ پریشان ہے تو حیرت ہے اب سنورنے کا وقت اس کو نہیں جب ہمیں دیکھنے کی فرصت ہے اس پہ اتنے ہی رنگ کھلتے ...

    مزید پڑھیے

    دلوں پر نقش ہونا چاہتا ہوں

    دلوں پر نقش ہونا چاہتا ہوں مکمل موت سے گھبرا رہا ہوں سبھی سے راز کہہ دیتا ہوں اپنے نہ جانے کیا چھپانا چاہتا ہوں توجہ کے لئے ترسا ہوں اتنا کہ اک الزام پر خوش ہو رہا ہوں مجھے محفل کے باہر کا نہ جانو میں اپنا جام خالی کر چکا ہوں یہ عادت بھی اسی کی دی ہوئی ہے کہ سب کو مسکرا کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4