شارق کیفی کی نظم

    کسی تانگے میں پھر سامان رکھا جا رہا ہے

    کسی کی آنسوؤں سے تر بتر داڑھی کے کچھ ٹوٹے ہوئے بال آج بھی ممکن ہے مل جائیں بڑے صندوق میں رکھے مرے بد رنگ سے اک سویٹر پر اسی دن کا کوئی ہم شکل دن ہے کسی تانگے میں پھر سامان رکھا جا رہا ہے وہی دہلیز ہے لیکن مرے داڑھی نہیں ہے مرا لڑکا گلے سے لگ کے میرے تھپک کر پیٹھ میری بزرگوں کی طرح ...

    مزید پڑھیے

    کتیا

    خالد جاوید کے نام مگر بلی کو رونا چاہیئے تھا مجھے ہوشیار کر کے ہی اس رات سونا چاہیئے تھا کہ وہ گھر میں ہے وہ یعنی مری موت اسے کچھ بھی نہیں کرنا پڑا مجھے تو صرف لمحے بھر کی اس شرمندگی نے مار ڈالا وہ میرے حال پر منہ پھاڑ کر جب ہنس رہی تھی کہ جب وہ سامنے آئی مری آنکھوں میں خوابوں کی ...

    مزید پڑھیے

    سرکس میں نوکری کا آخری دن

    لے چبا یہ سر جو اب جبڑوں میں ہے تیرے اگر تو واقعی میں شیر ہے تو شیر بن کر آج دکھلا دے مجھے جوکر سمجھتا تھا ارے میں تو فقط اس پیٹ کی خاطر ہنسانے کے لیے سب کو تیرے جبڑوں میں سر دینے سے پہلے بھاگ جاتا تھا مجھے اس کھیل کی تنخواہ ملتی تھی یہی کردار سرکس میں مرے حصے میں آیا تھا مگر میں آج ...

    مزید پڑھیے

    بہروپیا

    انوکھا اور نیا غم شرط ہے کوئی تمہارے خودکشی کرنے کی تو پھر بھول جاؤ یہاں تو بس وہی غم ہیں پرانے غم کہ جن سے کام یہ دنیا چلاتی آ رہی ہے مگر تم ہو کہ ہنس دیتے ہو ان پر اگر یہ غم تمہیں غم ہی نہیں لگتے کہ محبوبہ تمہاری بے وفا ہے کہ وہ بچہ چھٹی جس کی منانا تھی تمہیں آج ناک میں ہے آکسیجن ...

    مزید پڑھیے

    وہ بکرا پھر اکیلا پڑ گیا ہے

    وہ بکرا پھر اکیلا پڑ گیا ہے کہ مرا ہاتھ بھی ڈونگے میں اچھی بوٹیوں کو ڈھونڈتا ہے وہی بکرا کھڑا رکھا گیا ہے جس کو کونے میں نگاہوں سے چھپا کر وہ جس کی زندگی ہے منحصر اس بات پر کہ ہم کھائیں گے کتنا اور کتنا چھوڑ دیں گے بس یوں ہی اپنی پلیٹوں میں ابھی کچھ دیر پہلے میں کھڑا تھا پاس جس ...

    مزید پڑھیے

    چھٹی کا دن

    یہ میری موت پر چھٹی کا دن ہے کلنڈر پر چھپی یہ آج کی تاریخ میری موت ہی سے لال ہو سکتی تھی شاید سویرے تک جو کالی روشنائی سے لکھی تھی مزہ ہی کچھ الگ ہے ایسی چھٹی کا اچانک جو ملی ہو یہ میرا آخری تحفہ ہے اپنے ساتھیوں کو وگرنہ پیر کا دن کتنا سر دردی بھرا ہوتا ہے دفتر کا یہ دنیا جانتی ہے

    مزید پڑھیے

    فقط حصے کی خاطر

    فقط حصے کی خاطر کٹ گئی یہ زندگی میلاد سننے میں بلا جانے کہ حصہ ہے تو کیسا اور کتنا یہ سب آساں نہیں تھا گلاب اور عطر سے بھاری فضا میں سانس لینا دیر تک آساں نہیں تھا نہ آساں تھا سمجھنے کی اداکاری بھی کرنا اس زباں کو جس سے میں نا آشنا تھا اور وو بھی با ادب رہ کر بہت بھاری تھا بیلے کا وہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنے تماشے کا ٹکٹ

    یہ خواہش تو ہمارے شہر کے چڑیا گھروں کے شیر بھی شاید نہیں کرتے کہ ساتھی شیر ان کو دیکھنے آئیں ٹکٹ لے کر تماشے کی طرح تماشا بن کے یہ جینے کی مجبوری کہیں شرمندگی کی شکل میں منہ پر چھپی رہتی ہیں ان کے مگر انسان؟ اس کا بس نہیں چلتا کہ سر کے بل کھڑے ہو کر توجہ کھینچ لے سب کی وہی انساں جو ...

    مزید پڑھیے

    عبادت کے وقت میں حصہ

    عبادت میں خدا کے وقت میں حصے کی خواہش نہ جانے کیوں سبھی یادوں میں ہوتی ہے کھڑا رہتا ہوں میں بس ہاتھ باندھے اک کنارے سے مگر وہ قافلہ یادوں کا جیسے ختم ہونے میں نہیں آتا کہاں سجدہ کروں میں؟ بھول جاتا ہوں کہ رکعت کون سی ہے مصیبت ہے گوارا ہی نہیں ان کو مرا مسجد میں آنا مرا جنت میں ...

    مزید پڑھیے

    عجب مشکل ہے میری

    مری دنیا بہت تیزی سے خالی ہو رہی ہے عجب مشکل ہے میری کسی کی آنکھ میں ہے کون سا چہرہ مرا یہ بھول جاتا ہوں مگر الزام دینا حافظے کو بھی غلط ہوگا یہ ممکن ہی نہیں ہے کوئی اپنے سارے چہرے یاد رکھ پائے نتیجہ یہ کہ ہر جاتے ہوئے لمحے کے ہمراہ مری تنہائی بڑھتی جا رہی ہے میں اپنا ایک چہرہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3