تبسم لب پر آنکھوں میں نمی ہے
تبسم لب پر آنکھوں میں نمی ہے
خدا جانے یہ غم ہے یا خوشی ہے
جو منزل آج اہل ہوش کی ہے
وہ دیوانوں کی ٹھکرائی ہوئی ہے
کہاں جائے تھکا ماندہ مسافر
تو ہی سایہ تو ہی دیوار بھی ہے
ہزاروں ہیں سکون دل کے ساماں
یہ دنیا پھر بھی گھبرائی ہوئی ہے
اندھیرے چھو نہیں سکتے ہیں مجھ کو
کہ میرے ساتھ تیری روشنی ہے
زباں کہہ دے تو اک ہنگامہ ہو جائے
نظر معلوم کیا کیا دیکھتی ہے
نہ جانے کب ترا دامن چھوا تھا
مگر ہاتھوں میں اب تک تھرتھری ہے
وہ بیگانہ ہے اتنا زندگی سے
جیسے جتنا شعور زندگی ہے
جفاؤں نے ہزاروں رنگ بدلے
وفا اپنی جگہ پر آج بھی ہے
چلو اے ذمہ داران محبت
فراز دار پر پھر روشنی ہے
مرے سمٹے ہوئے دامن کو شاربؔ
بڑی حیرت سے دنیا دیکھتی ہے