کوئی کافر ہمیں سمجھے کہ مسلماں سمجھے

کوئی کافر ہمیں سمجھے کہ مسلماں سمجھے
ہم تو اے عشق تجھے حاصل ایماں سمجھے


لاکھوں مسلے ہوئے غنچے نہیں دیکھے ہم نے
چند ہنستے ہوئے پھولوں کو گلستاں سمجھے


خود بہ خود وقت پہ ہو جاتے ہیں ساماں کیونکر
کچھ جو سمجھے تو ہمیں بے سر و ساماں سمجھے


دعوت عام ہے اک راہ وفا ہے میں ہوں
وہ مرے ساتھ چلا آئے جو آساں سمجھے


باغباں کی مرے صاحب نظری کیا کہنا
پھول گلشن پہ ہنسے آپ بہاراں سمجھے


ہنس کے مل لیتے ہیں احباب یہی کافی ہے
کس کو فرصت کہ کسی کا غم پنہاں سمجھے


غنچہ و گل کے تبسم کی حقیقت کیا ہے
پہلے کانٹوں سے گزر جائے تو انساں سمجھے


وہ زمانے میں خوشی پا نہیں سکتے شاربؔ
آنسوؤں کو جو علاج غم دوراں سمجھے