تاروں میں چھپ گئے کہ گلوں میں نہاں رہے

تاروں میں چھپ گئے کہ گلوں میں نہاں رہے
میری نظر نے ڈھونڈھ لیا تم جہاں رہے


گزرے ہوئے زمانے کا کچھ تو نشاں رہے
گر آشیاں نہیں تو غم آشیاں رہے


یہ اور بات ہے کہ نظر سے نہاں رہے
لیکن وہ ساتھ ساتھ رہے ہم جہاں رہے


اس کو کسی مقام پہ محدود کیوں کرو
کون و مکاں بنا کے بھی جو لا مکاں رہے


اک نقش مستقل وہ زمانے میں بن گئے
جو بے نیاز خواہش نام و نشاں رہے


کیوں کر یقیں کریں کہ جہاں میں خوشی بھی ہے
ہم کو تو غم نے گھیر لیا ہم جہاں رہے


نام و نشاں کے واسطے مرتا ہے کیوں بشر
جو صاحب نشاں تھے کب ان کے نشاں رہے


کہتا ہے یہ گلوں کا تبسم بہت سمجھ
دنیا میں دو گھڑی بھی اگر شادماں رہے


شاربؔ جمال دوست کا پردہ تو رہ گیا
اچھا ہوا حجاب نظر درمیاں رہے