Shareef Ahmad Shareef

شریف احمد شریف

شریف احمد شریف کی غزل

    مٹھی میں چھپاتے ہیں گہر بولتے کم ہیں

    مٹھی میں چھپاتے ہیں گہر بولتے کم ہیں جو لوگ کہ رکھتے ہیں ہنر بولتے کم ہیں اب شوخئ گفتار عزیزوں میں نہیں ہے ملتے ہیں سر راہ مگر بولتے کم ہیں اشکوں ہی سے کچھ حال عیاں ہو تو عیاں ہو عشاق تو اے دیدۂ تر بولتے کم ہیں لگتا ہے کہ غافل ہیں زمانے سے یہ درویش رکھتے ہیں دو عالم کی خبر بولتے ...

    مزید پڑھیے

    یہ کس گماں پہ توقع ہے اے بھلے صاحب

    یہ کس گماں پہ توقع ہے اے بھلے صاحب دعائیں دے بھی وہی جس کا گھر جلے صاحب بس اس لیے کہ ہواؤں سے کھیلنا سیکھے ہم آندھیوں میں جلا کر دیا چلے صاحب ہمارا قتل کسی شب کی داستاں تو نہیں یہ سانحہ بھی ہوا اور دن ڈھلے صاحب کبوتروں پہ جھپٹنے کی خو کہاں ان میں کہ یہ عقاب تو زاغوں میں ہیں پلے ...

    مزید پڑھیے

    ہر منظر ہستی پر کہتی ہے خرد کیا ہے

    ہر منظر ہستی پر کہتی ہے خرد کیا ہے دیکھا ہے جو سچ ہے بھی یا خواب تمنا ہے آباد ترا کوچہ عشاق سے ہے تیرے اللہ رکھے تجھ کو تو ہے تو تماشہ ہے کیا حال کیا تو نے اپنا غم جاناں میں وحشت سی برستی ہے کس سوچ میں ڈوبا ہے آزاد پرندوں کی مانند جنوں میرا یا دشت میں آوارہ یا وسعت صحرا ہے یہ عقل ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹے ہوئے دیوار و در اجڑی ہوئی تھی میری چھت

    ٹوٹے ہوئے دیوار و در اجڑی ہوئی تھی میری چھت اس نے کہا کیا حال ہے میں نے کہا سب خیریت بارات اک آتی ہوئی میت کوئی جاتی ہوئی یہ زندگی ہے تہ بہ تہ کھلتی نہیں اس کی پرت چہروں کی رنگت زرد سی محفل ہوئی کیوں سرد سی باقی اگرچہ ہم میں ہے اب بھی وہی تاب و سکت انساں پریشاں دہر میں وحشی درندے ...

    مزید پڑھیے

    ایک شے تھی کہ جو پیکر میں نہیں ہے اپنے

    ایک شے تھی کہ جو پیکر میں نہیں ہے اپنے جس کو دیتے ہو صدا گھر میں نہیں ہے اپنے تجھے پانے کی تمنا تجھے چھونے کا خیال ایسا سودا بھی کوئی سر میں نہیں ہے اپنے تو نے تلوار بھی دیکھی نگۂ یار بھی دیکھ یہ تب و تاب تو خنجر میں نہیں ہے اپنے کس قبیلے سے اڑا لائی ہے فوج اعدا ایسا جرار تو لشکر ...

    مزید پڑھیے

    شہر میں کیسا خطر لگتا ہے

    شہر میں کیسا خطر لگتا ہے اپنے سائے سے بھی ڈر لگتا ہے آج پھر دل ہے دعا پر مائل بند پھر باب اثر لگتا ہے کچھ وقار در و دیوار نہیں ہو مکیں گھر میں تو گھر لگتا ہے آشیاں جس میں پرندوں کے نہ ہوں کتنا تنہا وہ شجر لگتا ہے آسماں کتنا جھک آیا ہے شریفؔ سر اٹھاتا ہوں تو سر لگتا ہے

    مزید پڑھیے

    کچھ بھی ہو اس سے جدائی کا سبب گھر جاؤ

    کچھ بھی ہو اس سے جدائی کا سبب گھر جاؤ ڈھل چکی شام اندھیرا ہوا اب گھر جاؤ شب میں گھس آتے ہیں آسیب مرے شہروں میں تاک میں رہتی ہے یہ وحشت شب گھر جاؤ لوگ حق مانگنے پہنچے تھے شہنشاہ کے پاس نوک خنجر پہ ملا حکم کے سب گھر جاؤ نہیں یہ زخم قبیلے کے لیے باعث ناز قتل ہو لو کسی تلوار سے تب گھر ...

    مزید پڑھیے

    کس لیے گردش حالات کا رونا ہے میاں

    کس لیے گردش حالات کا رونا ہے میاں وہ تو ہو کر ہی رہے گا کہ جو ہونا ہے میاں فیصلہ کر نہ سکی عقل کہ اس دنیا میں آدمی خود کوئی قوت کہ کھلونا ہے میاں میں کسی چیز کو پا کر بھی کبھی خوش نہ ہوا جانتا ہوں کہ ہر اک چیز کو کھونا ہے میاں اس کا کیا ذکر کہ محروم ثمر ہیں ہم لوگ نسل فردا کے لیے ...

    مزید پڑھیے