ہر منظر ہستی پر کہتی ہے خرد کیا ہے
ہر منظر ہستی پر کہتی ہے خرد کیا ہے
دیکھا ہے جو سچ ہے بھی یا خواب تمنا ہے
آباد ترا کوچہ عشاق سے ہے تیرے
اللہ رکھے تجھ کو تو ہے تو تماشہ ہے
کیا حال کیا تو نے اپنا غم جاناں میں
وحشت سی برستی ہے کس سوچ میں ڈوبا ہے
آزاد پرندوں کی مانند جنوں میرا
یا دشت میں آوارہ یا وسعت صحرا ہے
یہ عقل سے دوری ہے اے ہمت مردانہ
ٹوٹی ہوئی تلواریں اب جن پہ بھروسہ ہے
اک عمر کا یارانہ سوچو تو شریف احمدؔ
مٹی میں دبا آنا رسم و رہ دنیا ہے