ٹوٹے ہوئے دیوار و در اجڑی ہوئی تھی میری چھت

ٹوٹے ہوئے دیوار و در اجڑی ہوئی تھی میری چھت
اس نے کہا کیا حال ہے میں نے کہا سب خیریت


بارات اک آتی ہوئی میت کوئی جاتی ہوئی
یہ زندگی ہے تہ بہ تہ کھلتی نہیں اس کی پرت


چہروں کی رنگت زرد سی محفل ہوئی کیوں سرد سی
باقی اگرچہ ہم میں ہے اب بھی وہی تاب و سکت


انساں پریشاں دہر میں وحشی درندے شہر میں
یکسر بدل کر رہ گئی کیسے مرے شہروں کی گت


سرمایہ داری کا سبو ہے جس میں انساں کا لہو
اس سے تو اچھی ہے کہیں میری یہ مے پینے کی لت