یہ کس گماں پہ توقع ہے اے بھلے صاحب
یہ کس گماں پہ توقع ہے اے بھلے صاحب
دعائیں دے بھی وہی جس کا گھر جلے صاحب
بس اس لیے کہ ہواؤں سے کھیلنا سیکھے
ہم آندھیوں میں جلا کر دیا چلے صاحب
ہمارا قتل کسی شب کی داستاں تو نہیں
یہ سانحہ بھی ہوا اور دن ڈھلے صاحب
کبوتروں پہ جھپٹنے کی خو کہاں ان میں
کہ یہ عقاب تو زاغوں میں ہیں پلے صاحب
بدلتی رہتی ہے قصر و لحد میں گھر اپنے
حیات ہے کبھی اوپر کبھی تلے صاحب
ہمارے معجزۂ فن سے لوگ حیراں ہوں
ہمیں شریفؔ یہ خواہش نہ تھی ولے صاحب