قافلے کو بھٹک ہی جانا ہے

قافلے کو بھٹک ہی جانا ہے
راستے میں غبار اتنا ہے


پھر گھنی رات میں اجالا ہے
دل میں روشن وہ چاند چہرہ ہے


خار زاروں میں جسم الجھا ہے
خشک آنکھوں میں ایک صحرا ہے


لوگ آتے ہیں اور جاتے ہیں
جیسے دنیا سرائے خانہ ہے


خامشی کرب ہے سمندر کا
تہہ میں طوفان اٹھتا رہتا ہے


چیختا رہتا ہے نگر سارا
کون آواز کس کی سنتا ہے


بھول جانے کے بعد بھی اکثر
میرے دل میں وہ سیر کرتا ہے


شمسؔ پیاسا ہے آب جو کے لئے
صحرا صحرا بھٹکتا رہتا ہے