ریگ زار حیات سے گزرے

ریگ زار حیات سے گزرے
ہر قدم حادثات سے گزرے


خار‌‌ و خاشاک کا غبار لئے
گلشن کائنات سے گزرے


تجھ کو پانے کی جستجو یا رب
ہم حد کائنات سے گزرے


سب کو ہے دعویٰٔ ہمہ دانی
کتنے عرفان ذات سے گزرے


تیرے گھر کا طواف کرتے ہوئے
عالم شش جہات سے گزرے


عرش ہلنے لگا تھا آل رسول
تشنہ لب جب فرات سے گزرے


شمسؔ آفاق کے سفر میں ہم
نوع بہ نوع حادثات سے گزرے