شمیم قاسمی کی نظم

    سفر سے لوٹتے لمحوں میں

    وہ جسم جس کو اندھیرے نے چاندنی میں بنا وہ جسم جس کو تراشا نہیں گیا تھا مگر وہ جسم خود ہی تراشا ہوا تھا اک پیکر وہ جسم جس کے وسیلے سے اس جزیرے کی جو سیر میں نے کبھی کی تھی بھولنا ہے عبث وہ فاصلہ کہ جو صدیوں میں طے نہیں ہوگا وہ طے ہوا تھا فقط صرف چند لمحوں میں مری رگوں میں ابھی خون ...

    مزید پڑھیے

    اظہار تشکر

    ہنر مند ہاتھوں کی مٹی سے میں نے بنایا جو بہتے ہوئے پانیوں پہ مکاں تو سچ یہ زمانے کو کڑوا لگا میں کہ مزدور تھا ایک مجبور تھا کوئی نایاب گوہر نہ تھا میں کہ آذر نہ تھا یہ تو اچھا ہوا اے خدا تو نے رکھیں سلامت مری انگلیاں

    مزید پڑھیے

    سرابوں کا سفر

    دشت امکان میں جاری ہے سرابوں کا سفر ایک صحرائے جنوں حد نظر ہے حائل شاخ زیتون پہ آواز کا پنچھی گھائل دور پازیب کی چھم چھم ہے چمکتی شے ہے رہگزر کوئی نہیں دھند کے منظر کے سوا اک تری یادوں کے سوا ہر طرف ریت کے اٹھے ہیں بگولے حاتم نقش پا کوئی نہیں خون کے قطروں کے سو اک صدی بیت گئی ایک ...

    مزید پڑھیے

    طلسم سفر

    ایک دہشت زدہ نیم تاریک جنگل میں عقل و خرد کی ضرورت نہیں شاعری اور فکشن کی پرچھائیوں کا میں پیچھا کروں اور سپنے بنوں ایسی عادت نہیں نیم تاریک جنگل کے لمبے سفر پہ جو نکلے ہو تم تو سن لو نیم تاریک جنگل میں چاروں طرف ابوالہول سے واسطہ بھی پڑے گا تمہارا کئی شکل میں ورغلائیں گی تم کو ...

    مزید پڑھیے

    منظر یوں تھا

    شام رخصت ہو چکی تھی احساس کے تلووں کو سہلا کر کتنا سکون ملا تھا تب ننگے پاؤں گھاس پر چلنے کو بڑا دل چاہا کہ اچانک رات آئی سیاہ کفن میں اپنا منہ چھپائے اور بے ترتیب شب و روز کے درمیان ٹنگی ہوئی الگنی پر مجبور زندگی اپنے کرتب دکھلانے لگی اور رات جس طرح آسمان پر آوارہ بادلوں کے ...

    مزید پڑھیے

    ہجرتوں کا دکھ

    نیا پرانا ہو کوئی موسم تلاش جائے اماں رہے گی بہت دنوں تک دلوں کی سرحد پر پھر تشدد کی جنگ ہوگی اصول کی دھجیاں اڑیں گی گلی گلی میں قبیح لمحوں کے دیوتاؤں کا رقص ہوگا بہت دنوں تک فضا میں گرد و غبار ہوگا دھواں دھواں زندگی کی راہوں میں خار و خس کا حصار ہوگا بہت دنوں تک لہو لہو آسمان ...

    مزید پڑھیے

    نیا آدم

    برسوں کی ریاضت کے بعد زندگی کے تمام نمایاں اصولوں کے فولاد بنتے ہوئے سے دائروں کو توڑ کر ٹھیک دل کے بیچوں بیچ ایک انچ چھید کرنے کی کامیاب ٹریننگ ہم نے لے لی ہے اور اب تو جس تھالی میں کھاتے ہیں اس میں چھید کرنے کا گر بھی ہمیں آ گیا ہے مانا کہ درندوں کے بھی شکار کرنے کے اپنے اصول ...

    مزید پڑھیے

    مہاجر پرندے کا سفر

    جہاں پہ ختم ہو ایسا سفر نہیں آیا وہ تیرگی ہے کہ کچھ بھی نظر نہیں آیا وہ روشنی ہے کہ چشم غزال حیراں ہے نہیں ہے تاب کہ دیکھے ذرا بھی سوئے فلک کہاں سے آئی ہے روئے زمیں پہ ایسی چمک یہ راکٹوں کے دھماکے یہ عصری میزائل گماں ہے سمت سمندر بدل کے رکھ دیں گے ہرے بھرے سبھی منظر بدل کے رکھ دیں ...

    مزید پڑھیے

    ایک انچ مسکراہٹ

    کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ جیوں بہت دنوں تک یہاں تک کہ جینے کا سلیقہ کھو بیٹھوں یہاں تک کہ دوڑتی بھاگتی زندگی کے ٹمپو پر اٹھنے والے میٹر کی پرواہ کرنا فضول سا لگنے لگے جس طرح فضول سا لگنے لگتا ہے بیساکھی کا سہارا لے کر جینا پھر بھی جئے جاتا ہوں کہ کبھی کبھی جینا پڑتا ہے یہاں محض ایک ...

    مزید پڑھیے