شمیم قاسمی کے تمام مواد

11 غزل (Ghazal)

    کھوٹا سکہ اک دن چل بھی سکتا ہے

    کھوٹا سکہ اک دن چل بھی سکتا ہے راوی کا انداز بدل بھی سکتا ہے دو پل کا ہے ساتھ مگر تنہائی میں اندیشہ رسوائی کا پل بھی سکتا ہے ماچس کی اک تیلی جیسی آنکھوں سے حد نظر کا منظر جل بھی سکتا ہے دنیا اس کی مجبوری میں شامل ہے زیر زمیں وہ رہ کر پھل بھی سکتا ہے نیکی کا دریا سے گہرا رشتہ ...

    مزید پڑھیے

    مکان جاں پہ بھلا کب مکیں کا حصہ ہے

    مکان جاں پہ بھلا کب مکیں کا حصہ ہے یہ آسماں بھی سراسر زمیں کا حصہ ہے بدن کی ساری رگیں جل گئیں مگر اب تک جو جل نہ پایا کسی دل نشیں کا حصہ ہے ٹھہر بھی جاؤ کہ ہے بات کچھ مہینوں کی گماں کی ناف میں زندہ یقیں کا حصہ ہے چھپا ہوا نہیں رہتا ہے کچھ فقیروں کا چمک رہا ہے جو قشقہ جبیں کا حصہ ...

    مزید پڑھیے

    عجب سا وہ ارادہ کر رہا ہے

    عجب سا وہ ارادہ کر رہا ہے لکھے اوراق سادہ کر رہا ہے غزل میں گھولتا ہے رس لبوں کے ابھی تیکھی زیادہ کر رہا ہے تھی اس کے ہاتھ میں صندل سی لکڑی نہ جانے کیوں برادہ کر رہا ہے چھپانے سے نہیں چھپتا ہے لہجہ اگرچہ وہ ارادہ کر رہا ہے نہیں مابعد کا چکر نہیں ہے فقط اذہان تازہ کر رہا ہے

    مزید پڑھیے

    نیا لہجہ غزل کا مصرع ثانی میں رکھا ہے

    نیا لہجہ غزل کا مصرع ثانی میں رکھا ہے ہوا کو مٹھیوں میں آگ کو پانی میں رکھا ہے نہ جانے کیا سمجھ کر چکھ لیا تھا دانۂ گندم ابھی اک بھول نے اب تک پشیمانی میں رکھا ہے وطن سے دور ہوں میں رزق کی خاطر مرے مولا مگر بستی کو تیری ہی نگہبانی میں رکھا ہے سفر میں بھی ڈرامائی عناصر کام آئے ...

    مزید پڑھیے

    سیال تصور ہے ابلنے کی طرح کا

    سیال تصور ہے ابلنے کی طرح کا اک عکس سے سو عکس میں ڈھلنے کی طرح کا اب سانحۂ ہجر مسلسل کا مزہ بھی ہے آتش تخلیق میں جلنے کی طرح کا سب قید ہوا جاتا ہے تنگنائے غزل میں منظر پس منظر ہے بدلنے کی طرح کا اپنی ہی طرح کا ہے قدم راہ طلب میں گرنے کی طرح کا نہ سنبھلنے کی طرح کا سمجھو کہ قریب آ ...

    مزید پڑھیے

تمام

9 نظم (Nazm)

    سفر سے لوٹتے لمحوں میں

    وہ جسم جس کو اندھیرے نے چاندنی میں بنا وہ جسم جس کو تراشا نہیں گیا تھا مگر وہ جسم خود ہی تراشا ہوا تھا اک پیکر وہ جسم جس کے وسیلے سے اس جزیرے کی جو سیر میں نے کبھی کی تھی بھولنا ہے عبث وہ فاصلہ کہ جو صدیوں میں طے نہیں ہوگا وہ طے ہوا تھا فقط صرف چند لمحوں میں مری رگوں میں ابھی خون ...

    مزید پڑھیے

    اظہار تشکر

    ہنر مند ہاتھوں کی مٹی سے میں نے بنایا جو بہتے ہوئے پانیوں پہ مکاں تو سچ یہ زمانے کو کڑوا لگا میں کہ مزدور تھا ایک مجبور تھا کوئی نایاب گوہر نہ تھا میں کہ آذر نہ تھا یہ تو اچھا ہوا اے خدا تو نے رکھیں سلامت مری انگلیاں

    مزید پڑھیے

    سرابوں کا سفر

    دشت امکان میں جاری ہے سرابوں کا سفر ایک صحرائے جنوں حد نظر ہے حائل شاخ زیتون پہ آواز کا پنچھی گھائل دور پازیب کی چھم چھم ہے چمکتی شے ہے رہگزر کوئی نہیں دھند کے منظر کے سوا اک تری یادوں کے سوا ہر طرف ریت کے اٹھے ہیں بگولے حاتم نقش پا کوئی نہیں خون کے قطروں کے سو اک صدی بیت گئی ایک ...

    مزید پڑھیے

    طلسم سفر

    ایک دہشت زدہ نیم تاریک جنگل میں عقل و خرد کی ضرورت نہیں شاعری اور فکشن کی پرچھائیوں کا میں پیچھا کروں اور سپنے بنوں ایسی عادت نہیں نیم تاریک جنگل کے لمبے سفر پہ جو نکلے ہو تم تو سن لو نیم تاریک جنگل میں چاروں طرف ابوالہول سے واسطہ بھی پڑے گا تمہارا کئی شکل میں ورغلائیں گی تم کو ...

    مزید پڑھیے

    منظر یوں تھا

    شام رخصت ہو چکی تھی احساس کے تلووں کو سہلا کر کتنا سکون ملا تھا تب ننگے پاؤں گھاس پر چلنے کو بڑا دل چاہا کہ اچانک رات آئی سیاہ کفن میں اپنا منہ چھپائے اور بے ترتیب شب و روز کے درمیان ٹنگی ہوئی الگنی پر مجبور زندگی اپنے کرتب دکھلانے لگی اور رات جس طرح آسمان پر آوارہ بادلوں کے ...

    مزید پڑھیے

تمام