ہجرتوں کا دکھ

نیا پرانا
ہو کوئی موسم
تلاش جائے اماں رہے گی
بہت دنوں تک
دلوں کی سرحد پر
پھر تشدد کی جنگ ہوگی
اصول کی دھجیاں اڑیں گی
گلی گلی میں
قبیح لمحوں کے دیوتاؤں کا رقص ہوگا
بہت دنوں تک
فضا میں گرد و غبار ہوگا
دھواں دھواں زندگی کی راہوں میں
خار و خس کا حصار ہوگا
بہت دنوں تک
لہو لہو آسمان ہوگا
شجر شجر بے زبان ہوگا
وہ پھول
جن کی رگوں میں اپنا لہو ہے شامل
بدلتے موسم کا ساتھ دیں گے
ہمارے سب ہی حریف ہوں گے
بگولے مغرب سے اٹھ رہے ہیں
پھر ایک تازہ سا زخم ہوگا