مہاجر پرندے کا سفر

جہاں پہ ختم ہو
ایسا سفر نہیں آیا
وہ تیرگی ہے کہ
کچھ بھی نظر نہیں آیا
وہ روشنی ہے کہ
چشم غزال حیراں ہے
نہیں ہے تاب کہ
دیکھے ذرا بھی سوئے فلک
کہاں سے آئی ہے
روئے زمیں پہ ایسی چمک
یہ راکٹوں کے دھماکے
یہ عصری میزائل
گماں ہے سمت سمندر
بدل کے رکھ دیں گے
ہرے بھرے سبھی منظر
بدل کے رکھ دیں گے
فصیل جسم کی دیوار
ڈھا کے رکھ دیں گے
یہ غم الگ ہے کہ
وہ آبشار سوکھ گیا
کہ جس سے ملتی تھی
جنگل کی زندگی کو نمو
فضا میں دور تلک
پھیلی ہوئی ہے کیسی بو
گلوں کے ہونٹ سے
اب تک فرار ہے خوشبو
یہ مانتا ہوں کہ
ذوق جنوں کی سرحد پہ
ابھی بھی
ہجر کی پرچھائیاں
سلگتی ہیں
ابھی بھی
دشت میں کچھ لکڑیاں
سلگتی ہیں
خزاں کے بعد
چمن میں بہار آتی ہے
الگ یہ بات کبھی اشک بار آتی ہے
اگر یہ سچ ہے تو
ایسا یقین ہے مجھ کو
ترے وصال کا موسم
ضرور آئے گا
ابھی اداس ہے جنگل
لہو لہو ہے فضا
مرے جنوں کا پرندہ
ابھی مہاجر ہے
جہاں پہ ختم ہو
ایسا سفر نہیں آیا