سفر سے لوٹتے لمحوں میں

وہ جسم
جس کو اندھیرے نے چاندنی میں بنا
وہ جسم
جس کو تراشا نہیں گیا تھا مگر
وہ جسم
خود ہی تراشا ہوا تھا اک پیکر
وہ جسم
جس کے وسیلے سے اس جزیرے کی
جو سیر میں نے کبھی کی تھی
بھولنا ہے عبث
وہ فاصلہ
کہ جو صدیوں میں طے نہیں ہوگا
وہ طے ہوا تھا
فقط صرف چند لمحوں میں
مری رگوں میں ابھی
خون منجمد ہے مگر
تمہاری یاد کی
پروا کبھی جو بہتی ہے
تو اپنے ہونے کا احساس جاگتا ہے بہت
الگ یہ بات
کہ یہ جسم ناتواں میرا
سفر سے لوٹتے لمحوں میں
ہانپتا ہے بہت