شمیم قاسمی کی غزل

    کھوٹا سکہ اک دن چل بھی سکتا ہے

    کھوٹا سکہ اک دن چل بھی سکتا ہے راوی کا انداز بدل بھی سکتا ہے دو پل کا ہے ساتھ مگر تنہائی میں اندیشہ رسوائی کا پل بھی سکتا ہے ماچس کی اک تیلی جیسی آنکھوں سے حد نظر کا منظر جل بھی سکتا ہے دنیا اس کی مجبوری میں شامل ہے زیر زمیں وہ رہ کر پھل بھی سکتا ہے نیکی کا دریا سے گہرا رشتہ ...

    مزید پڑھیے

    مکان جاں پہ بھلا کب مکیں کا حصہ ہے

    مکان جاں پہ بھلا کب مکیں کا حصہ ہے یہ آسماں بھی سراسر زمیں کا حصہ ہے بدن کی ساری رگیں جل گئیں مگر اب تک جو جل نہ پایا کسی دل نشیں کا حصہ ہے ٹھہر بھی جاؤ کہ ہے بات کچھ مہینوں کی گماں کی ناف میں زندہ یقیں کا حصہ ہے چھپا ہوا نہیں رہتا ہے کچھ فقیروں کا چمک رہا ہے جو قشقہ جبیں کا حصہ ...

    مزید پڑھیے

    عجب سا وہ ارادہ کر رہا ہے

    عجب سا وہ ارادہ کر رہا ہے لکھے اوراق سادہ کر رہا ہے غزل میں گھولتا ہے رس لبوں کے ابھی تیکھی زیادہ کر رہا ہے تھی اس کے ہاتھ میں صندل سی لکڑی نہ جانے کیوں برادہ کر رہا ہے چھپانے سے نہیں چھپتا ہے لہجہ اگرچہ وہ ارادہ کر رہا ہے نہیں مابعد کا چکر نہیں ہے فقط اذہان تازہ کر رہا ہے

    مزید پڑھیے

    نیا لہجہ غزل کا مصرع ثانی میں رکھا ہے

    نیا لہجہ غزل کا مصرع ثانی میں رکھا ہے ہوا کو مٹھیوں میں آگ کو پانی میں رکھا ہے نہ جانے کیا سمجھ کر چکھ لیا تھا دانۂ گندم ابھی اک بھول نے اب تک پشیمانی میں رکھا ہے وطن سے دور ہوں میں رزق کی خاطر مرے مولا مگر بستی کو تیری ہی نگہبانی میں رکھا ہے سفر میں بھی ڈرامائی عناصر کام آئے ...

    مزید پڑھیے

    سیال تصور ہے ابلنے کی طرح کا

    سیال تصور ہے ابلنے کی طرح کا اک عکس سے سو عکس میں ڈھلنے کی طرح کا اب سانحۂ ہجر مسلسل کا مزہ بھی ہے آتش تخلیق میں جلنے کی طرح کا سب قید ہوا جاتا ہے تنگنائے غزل میں منظر پس منظر ہے بدلنے کی طرح کا اپنی ہی طرح کا ہے قدم راہ طلب میں گرنے کی طرح کا نہ سنبھلنے کی طرح کا سمجھو کہ قریب آ ...

    مزید پڑھیے

    وہ شخص بھی ہے عجیب و غریب ڈھونڈھتا ہے

    وہ شخص بھی ہے عجیب و غریب ڈھونڈھتا ہے صف رقیب میں ہے اور رقیب ڈھونڈھتا ہے جھلس نہ دے کہیں اس کو بھی آتش مفہوم مری غزل میں وہ ذکر حبیب ڈھونڈھتا ہے اگرچہ ہو گیا بوڑھا وصال کا موسم وہ بوئے یار ابھی بھی قریب ڈھونڈھتا ہے وہ اپنے عہد کا صحرا نورد ہے لیکن شجر کو کاٹ کے اب عندلیب ...

    مزید پڑھیے

    فضائے نم میں صداؤں کا شور ہو جائے

    فضائے نم میں صداؤں کا شور ہو جائے وہ مسکرا دے ذرا سا تو بھور ہو جائے کبھی جو اتروں میں رقص سخن کے صحرا میں تو اپنا حال بھی مانند مور ہو جائے وہ مے کدے سے بھی نکلے تو پاکباز رہے میں اس کی آنکھوں سے پی لوں تو شور ہو جائے نظر میں پھول ہو کاغذ پہ ایک صحرا ہو تو یوں غزل کا کوئی اور ...

    مزید پڑھیے

    کسی ٹرین کے نیچے وہ کٹ گیا ہوتا

    کسی ٹرین کے نیچے وہ کٹ گیا ہوتا غبار راہ طلسمات چھٹ گیا ہوتا چلو یہ اچھا کہ چندن بدن سے دور رہے میں سانپ بن کے کمر سے لپٹ گیا ہوتا کسی کے ہجر میں اتنی گھٹن سے بہتر تھا ہوا میں صورت غبارہ پھٹ گیا ہوتا ہوا کہ ڈھیر سی اشیا سے بھر گیا دامن اے کاش ذرۂ نیکی بھی اٹ گیا ہوتا زبان آتی تو ...

    مزید پڑھیے

    یہ اور بات کہ گملے میں اگ رہا ہوں میں

    یہ اور بات کہ گملے میں اگ رہا ہوں میں زبان بھول نہ پائے وہ ذائقہ ہوں میں اندھیری شب میں حرارت بدن کی روشن رکھ وہی کروں گا اشارہ جو کر رہا ہوں میں سخن سفر میں بدن اس نے کھول رکھے ہیں ذرا سا سایۂ دیوار چاہتا ہوں میں میں چاہتا ہوں کہوں ایک نک چڑھی سی غزل اگرچہ حلقۂ یاراں میں نک ...

    مزید پڑھیے

    سب سے پہلے تو عرض مطلع ہے

    سب سے پہلے تو عرض مطلع ہے یوں سمجھئے کہ اس کا جلوہ ہے آئینہ جھوٹ بولنے کے لیے سو بہانے تلاش کرتا ہے زندہ رکھے گی شاعری مجھ کو کون کہتا ہے اس میں گھاٹا ہے دل شاعر بھی ہے پھسڈی ہی حسن کے پیچھے پیچھے رہتا ہے سچ زمینی کہ آسمانی ہو وہ بدن زندہ استعارہ ہے کوئی اچھا سا شعر ہو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2