کھوٹا سکہ اک دن چل بھی سکتا ہے
کھوٹا سکہ اک دن چل بھی سکتا ہے
راوی کا انداز بدل بھی سکتا ہے
دو پل کا ہے ساتھ مگر تنہائی میں
اندیشہ رسوائی کا پل بھی سکتا ہے
ماچس کی اک تیلی جیسی آنکھوں سے
حد نظر کا منظر جل بھی سکتا ہے
دنیا اس کی مجبوری میں شامل ہے
زیر زمیں وہ رہ کر پھل بھی سکتا ہے
نیکی کا دریا سے گہرا رشتہ ہے
شعلوں سے وہ بچ کے نکل بھی سکتا ہے
اس کی چاہت میں لازم ہے شدت بھی
وہ بشری پیکر میں ڈھل بھی سکتا ہے