عجب سا وہ ارادہ کر رہا ہے
عجب سا وہ ارادہ کر رہا ہے
لکھے اوراق سادہ کر رہا ہے
غزل میں گھولتا ہے رس لبوں کے
ابھی تیکھی زیادہ کر رہا ہے
تھی اس کے ہاتھ میں صندل سی لکڑی
نہ جانے کیوں برادہ کر رہا ہے
چھپانے سے نہیں چھپتا ہے لہجہ
اگرچہ وہ ارادہ کر رہا ہے
نہیں مابعد کا چکر نہیں ہے
فقط اذہان تازہ کر رہا ہے