وہ شخص بھی ہے عجیب و غریب ڈھونڈھتا ہے

وہ شخص بھی ہے عجیب و غریب ڈھونڈھتا ہے
صف رقیب میں ہے اور رقیب ڈھونڈھتا ہے


جھلس نہ دے کہیں اس کو بھی آتش مفہوم
مری غزل میں وہ ذکر حبیب ڈھونڈھتا ہے


اگرچہ ہو گیا بوڑھا وصال کا موسم
وہ بوئے یار ابھی بھی قریب ڈھونڈھتا ہے


وہ اپنے عہد کا صحرا نورد ہے لیکن
شجر کو کاٹ کے اب عندلیب ڈھونڈھتا ہے


وہ شعر کہتا ہے یا کوئی جال بنتا ہے
سخن سفر میں علاقہ مہیب ڈھونڈھتا ہے