Shamim Karhani

شمیم کرہانی

ترقی پسند شاعر- انقلابی نظموں کے لئے مشہور

Prominent pre-modern poet and broadcaster famous for his nationalistic poems

شمیم کرہانی کی غزل

    اگرچہ عشق میں اک بے خودی سی رہتی ہے

    اگرچہ عشق میں اک بے خودی سی رہتی ہے مگر وہ نیند بھی جاگی ہوئی سی رہتی ہے وہی تو وجہ تعارف ہے کوئی کیا جانے ادا ادا میں جو اک بے رخی سی رہتی ہے بڑی عجیب ہے شب ہائے غم کی ظلمت بھی دیے جلاؤ مگر تیرگی سی رہتی ہے ہزار درد فرائض ہیں اور دل تنہا مرے خلوص کو شرمندگی سی رہتی ہے شمیمؔ خون ...

    مزید پڑھیے

    یہ خوشی غم زمانہ کا شکار ہو نہ جائے

    یہ خوشی غم زمانہ کا شکار ہو نہ جائے نہ ملو زیادہ ہم سے کہیں پیار ہو نہ جائے جو مچل رہی ہے شیشے میں حسین ہے وہ شبنم مرے لب تک آتے آتے جو شرار ہو نہ جائے نہ کٹیں اکیلے دل سے غم زندگی کی راہیں جو شریک فکر دوراں غم یار ہو نہ جائے نہ بڑھا بہت چمن سے رہ و رسم آشیانہ کہ مزاج باغباں پر ...

    مزید پڑھیے

    جشن حیات ہو چکا جشن ممات اور ہے

    جشن حیات ہو چکا جشن ممات اور ہے ایک برات آ چکی ایک برات اور ہے عشق کی اک زبان پر لاکھ طرح کی بندشیں آپ تو جو کہیں بجا آپ کی بات اور ہے پینے کو اس جہان میں کون سی مے نہیں مگر عشق جو بانٹتا ہے وہ آب حیات اور ہے ظلمت وقت سے کہو حسرت دل نکال لے ظلمت وقت کے لیے آج کی رات اور ہے ان کو ...

    مزید پڑھیے

    پی لے جو لہو دل کا وہ عشق کی مستی ہے

    پی لے جو لہو دل کا وہ عشق کی مستی ہے کیا مست ہے یہ ناگن اپنے ہی کو ڈستی ہے مے خانے کے سائے میں رہنے دے مجھے ساقی مے خانے کے باہر تو اک آگ برستی ہے اے زلف غم جاناں تو چھاؤں گھنی کر دے رہ رہ کے جگاتا ہے شاید غم ہستی ہے ڈھلتے ہیں یہاں شیشے چلتے ہیں یہاں پتھر دیوانو ٹھہر جاؤ صحرا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں تھے ایسے سرپھرے ہمیں تھے ایسے منچلے

    ہمیں تھے ایسے سرپھرے ہمیں تھے ایسے منچلے کہ تیرے غم کی رات میں چراغ کی طرح جلے ملے کوئی تو پھر مزے نہ زندگی کے پوچھئے کٹے جو رات دیر میں تو مے کدے میں دن ڈھلے کھلی ہوئی ہر اک کلی مہک رہی ہے شاخ پر تو کچھ اداس پھول بھی پڑے ہیں شاخ کے تلے اس انجمن کو کیا ہوا نہ روشنی نہ زندگی چراغ و ...

    مزید پڑھیے

    قید غم حیات سے ہم کو چھڑا لیا

    قید غم حیات سے ہم کو چھڑا لیا اچھا کیا کہ آپ نے اپنا بنا لیا ہونے دیا نہ ہم نے اندھیرا شب فراق بجھنے لگا چراغ تو دل کو جلا لیا دنیا کے پاس ہے کوئی اس طنز کا جواب دیوانہ اپنے حال پہ خود مسکرا لیا کیا بات تھی کہ خلوت زاہد کو دیکھ کر رند گناہ گار نے سر کو جھکا لیا چپ ہوں تمہارا درد ...

    مزید پڑھیے

    زباں کو حکم ہی کہاں کہ داستان غم کہیں

    زباں کو حکم ہی کہاں کہ داستان غم کہیں ادا ادا سے تم کہو نظر نظر سے ہم کہیں جو تم خدا خدا کہو تو ہم صنم صنم کہیں کہ ایک ہی سی بات ہے وہ تم کہو کہ ہم کہیں ملے ہیں تشنہ میکشوں کو چند جام اس لیے کہیں نہ حال تشنگی کہیں تو کم سے کم کہیں ستم گران سادہ دل یہ بات جانتے نہیں کہ وہ ستم ظریف ...

    مزید پڑھیے

    وہاں کھلے بھی تو کیونکر بساط حکمت و فن

    وہاں کھلے بھی تو کیونکر بساط حکمت و فن ملے ہر ایک جبیں پر جہاں شکن ہی شکن ہماری خاک کبھی رائیگاں نہ جائے گی ہماری خاک کو پہچانتی ہے خاک وطن خزاں کی رات میں کمھلا کے پھول گرتے ہیں تو جاگ جاتی ہے سوئی ہوئی زمین چمن بہت ہے رات اندھیری مگر چلے ہی چلو کہ آپ اپنے مسافر کو ڈھونڈ لے گی ...

    مزید پڑھیے

    سمجھے ہے مفہوم نظر کا دل کا اشارہ جانے ہے

    سمجھے ہے مفہوم نظر کا دل کا اشارہ جانے ہے ہم تم چپ ہیں لیکن دنیا حال ہمارا جانے ہے ہلکی ہوا کے اک جھونکے میں کیسے کیسے پھول گرے گلشن کے گل پوش نہ جانیں گلشن سارا جانے ہے شمع تمنا پچھلے پہر تک درد کا آنسو بن ہی گئی شام کا تارا کیسے ڈوبا صبح کا تارا جانے ہے کیا کیا ہیں آئین تماشا ...

    مزید پڑھیے

    کون ہے درد آشنا سنگ دلی کا دور ہے

    کون ہے درد آشنا سنگ دلی کا دور ہے دل کا دیا بچایئے آج ہوا کچھ اور ہے سارے جہاں کی شام غم صبح بہار بن گئی میری سحر کا مسئلہ آج بھی زیر غور ہے نشۂ درد کھو گیا ساقی درد سو گیا محفل دل میں جائیں کیا تشنہ لبی کا دور ہے خون جگر سے عمر بھر قرض حیات ادا کیا پھر بھی یہی سنا کئے روز حساب اور ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4