وہاں کھلے بھی تو کیونکر بساط حکمت و فن
وہاں کھلے بھی تو کیونکر بساط حکمت و فن
ملے ہر ایک جبیں پر جہاں شکن ہی شکن
ہماری خاک کبھی رائیگاں نہ جائے گی
ہماری خاک کو پہچانتی ہے خاک وطن
خزاں کی رات میں کمھلا کے پھول گرتے ہیں
تو جاگ جاتی ہے سوئی ہوئی زمین چمن
بہت ہے رات اندھیری مگر چلے ہی چلو
کہ آپ اپنے مسافر کو ڈھونڈ لے گی کرن
کھلے ہیں پھول مگر دل کہاں کھلے ہیں شمیمؔ
ابھی چمن سے بہت دور ہے بہار چمن