یہ خوشی غم زمانہ کا شکار ہو نہ جائے

یہ خوشی غم زمانہ کا شکار ہو نہ جائے
نہ ملو زیادہ ہم سے کہیں پیار ہو نہ جائے


جو مچل رہی ہے شیشے میں حسین ہے وہ شبنم
مرے لب تک آتے آتے جو شرار ہو نہ جائے


نہ کٹیں اکیلے دل سے غم زندگی کی راہیں
جو شریک فکر دوراں غم یار ہو نہ جائے


نہ بڑھا بہت چمن سے رہ و رسم آشیانہ
کہ مزاج باغباں پر کہیں بار ہو نہ جائے


تری تازہ مسکراہٹ سے بھر آئی آنکھ یعنی
کہیں یہ نشان منزل بھی غبار ہو نہ جائے


جو قریب ہے کنارہ تو بڑھا ہے اور طوفاں
کہ یہ سخت جان کشتی کہیں پار ہو نہ جائے


اسی طرح خون دل سے تو چمن کو سینچتا جا
یہ خزاں شمیمؔ جب تک کہ بہار ہو نہ جائے