ٹوٹی ہوئی کشتی کو کنارے بھی ملے ہیں
ٹوٹی ہوئی کشتی کو کنارے بھی ملے ہیں طوفان سے دنیا کو سہارے بھی ملے ہیں اغیار ہی خالی نہیں اغیار کی صف میں دیکھا ہے تو کچھ دوست ہمارے بھی ملے ہیں چھلکے ہیں جہاں جام تری بزم میں ساقی کچھ لوگ وہیں پیاس کے مارے بھی ملے ہیں پینے سے قدم یوں تو بہک جاتے ہیں لیکن کچھ پاؤں جمانے کے ...