Shamim Karhani

شمیم کرہانی

ترقی پسند شاعر- انقلابی نظموں کے لئے مشہور

Prominent pre-modern poet and broadcaster famous for his nationalistic poems

شمیم کرہانی کی غزل

    ٹوٹی ہوئی کشتی کو کنارے بھی ملے ہیں

    ٹوٹی ہوئی کشتی کو کنارے بھی ملے ہیں طوفان سے دنیا کو سہارے بھی ملے ہیں اغیار ہی خالی نہیں اغیار کی صف میں دیکھا ہے تو کچھ دوست ہمارے بھی ملے ہیں چھلکے ہیں جہاں جام تری بزم میں ساقی کچھ لوگ وہیں پیاس کے مارے بھی ملے ہیں پینے سے قدم یوں تو بہک جاتے ہیں لیکن کچھ پاؤں جمانے کے ...

    مزید پڑھیے

    رکھنا ہے تو پھولوں کو تو رکھ لے نگاہوں میں

    رکھنا ہے تو پھولوں کو تو رکھ لے نگاہوں میں خوشبو تو مسافر ہے کھو جائے گی راہوں میں کیوں میری محبت سے برہم ہو زمیں والو اک اور گنہ رکھ لو دنیا کے گناہوں میں کیفیت مے دل کا درماں نہ ہوئی لیکن رنگیں تو رہی دنیا کچھ دیر نگاہوں میں کانٹوں سے گزر جانا دشوار نہیں لیکن کانٹے ہی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    غم دو عالم کا جو ملتا ہے تو غم ہوتا ہے

    غم دو عالم کا جو ملتا ہے تو غم ہوتا ہے کہ یہ بادہ بھی مرے ظرف سے کم ہوتا ہے کب مری شام تمنا کو ملے گا اے دوست وہ سویرا جو ترا نقش قدم ہوتا ہے بے خبر پھول کو بھی کھینچ کے پتھر پہ نہ مار کہ دل سنگ میں خوابیدہ صنم ہوتا ہے ہائے وہ محویت دید کا عالم جس وقت اپنی پلکوں کا جھپکنا بھی ستم ...

    مزید پڑھیے

    ان کا وعدہ بدل گیا ہے

    ان کا وعدہ بدل گیا ہے فردا آنسو میں ڈھل گیا ہے تنہائی سے کچھ ہوئی ہیں باتیں تنہائی سے دل بہل گیا ہے معمول نظر وہی ہے لیکن مفہوم نظر بدل گیا ہے رک جا اے کاروان امروز ماضی میرا کچل گیا ہے ساحل پہ نگاہ آنکھ والو اندھا طوفاں مچل گیا ہے ساغر میں شراب ہے کہ یارو انگارہ کوئی پگھل ...

    مزید پڑھیے

    فاصلہ تو ہے مگر کوئی فاصلہ نہیں

    فاصلہ تو ہے مگر کوئی فاصلہ نہیں مجھ سے تم جدا سہی دل سے تم جدا نہیں کاروان آرزو اس طرف نہ رخ کرے ان کی رہ گزر ہے دل عام راستہ نہیں اک شکست آئینہ بن گئی ہے سانحہ ٹوٹ جائے دل اگر کوئی حادثہ نہیں آئیے چراغ دل آج ہی جلائیں ہم کیسی کل ہوا چلے کوئی جانتا نہیں آسماں کی فکر کیا آسماں ...

    مزید پڑھیے

    زہر کو مے دل صد پارہ کو مینا نہ کہو

    زہر کو مے دل صد پارہ کو مینا نہ کہو دور ایسا ہے کہ پینے کو بھی پینا نہ کہو نہ بتاؤ کہ تبسم بھی ہے اک زخم کا نام چاک ہے کس لیے انسان کا سینہ نہ کہو کم نگاہوں کا ہے فرمان کہ اے دیدہ ورو کس لیے تم کو ملا دیدۂ بینا نہ کہو رکھ دو الزام کسی موجۂ معصوم کے سر ناخداؤں نے ڈبویا ہے سفینہ نہ ...

    مزید پڑھیے

    یوں ترے مست سر راہ چلا کرتے ہیں

    یوں ترے مست سر راہ چلا کرتے ہیں جیسے شاہان فلک جاہ چلا کرتے ہیں غم دنیا غم جاناں غم منزل غم راہ کتنے غم زیست کے ہم راہ چلا کرتے ہیں دل بھی کیا راہ گزر ہے کہ ہمیشہ جس میں زہرہ و مشتری و ماہ چلا کرتے ہیں یہ تو رندوں کی گلی ہے ادھر اے شیخ کہاں ایسی راہوں میں تو گمراہ چلا کرتے ہیں غم ...

    مزید پڑھیے

    نگار مہوش و محبوب لالہ رو کی طرح

    نگار مہوش و محبوب لالہ رو کی طرح کوئی تو رات مرے خواب آرزو کی طرح چراغ شام تمنا کا رنگ کیا کہئے لرز رہا ہے کسی حرف آرزو کی طرح شگفت گل کا تبسم بھی حرف دل کش ہے مگر کہاں ترے انداز گفتگو کی طرح بہل ہی جائے گا دل نیند آ ہی جائے گی ہوا تو دے کوئی دامان مشک بو کی طرح خلوص عشق ہراساں ...

    مزید پڑھیے

    انمول سہی نایاب سہی بے دام و درم بک جاتے ہیں

    انمول سہی نایاب سہی بے دام و درم بک جاتے ہیں بس پیار ہماری قیمت ہے مل جائے تو ہم بک جاتے ہیں سکوں کی چمک پہ گرتے ہوئے دیکھا ہے شیخ و برہمن کو پھر میرے کھنڈر کی قیمت کیا جب دیر و حرم بک جاتے ہیں کیا شرم خودی کیا پاس حیا غربت کی اندھیری راتوں میں کتنے ہی بتان زہرہ جبیں بادیدۂ نم بک ...

    مزید پڑھیے

    یاد کی صبح ڈھل گئی شوق کی شام ہو گئی

    یاد کی صبح ڈھل گئی شوق کی شام ہو گئی آپ کے انتظار میں عمر تمام ہو گئی پی ہے جو ایک بوند بھی جاگ پڑی ہے زندگی ایسی شراب جاں فزا کیسے حرام ہو گئی ساتھ کسی نے چھوڑ کر توڑ دیا کسی کا دل چل تو پڑا تھا کارواں راہ میں شام ہو گئی نکلے بیاد مے کدہ تاروں کے ساتھ ساتھ ہم جام تک آ کے زندگی ماہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4