Shama Zafar Mehdi

شمع ظفر مہدی

  • 1943

شمع ظفر مہدی کی غزل

    ایسے رہتے ہیں اپنے گھر میں اسیر

    ایسے رہتے ہیں اپنے گھر میں اسیر روشنی جیسے بام و در میں اسیر یوں ہیں فکر و خیال ہم آہنگ لفظ معنی کے ہے اثر میں اسیر نام کیا پوچھتے کہ حیراں تھے ہم ہوئے کیسے اس سحر میں اسیر بس شباہت تلاش کرنا ہے وہ ہے خود اپنے ہی ہنر میں اسیر ہم ہوئے متن میں نظر انداز صاحب دہر ہے دہر میں ...

    مزید پڑھیے

    سنائے اس نے جب اشعار میرے

    سنائے اس نے جب اشعار میرے کئی مصرعے ہوئے گل بار میرے سفر دریا کی رو پر منحصر ہے نہیں ہیں ہاتھ میں پتوار میرے کہانی میں نمایاں ہو گئے ہیں وہی ہیں ثانوی کردار میرے وہ ان راہوں سے ہجرت کر گئے ہیں شجر جتنے تھے سایہ دار میرے ہوا منظوم ہو کر آ رہی ہے ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار ...

    مزید پڑھیے

    ذکر جس کا سحر و شام سے وابستہ ہے

    ذکر جس کا سحر و شام سے وابستہ ہے روشنی ذہن کی اس نام سے وابستہ ہے جیسے ذرہ کبھی سورج کے مقابل آ جائے یوں مرا نام ترے نام سے وابستہ ہے دن کے صحرا میں بہت دیر سے شام آتی ہے اس سے ملنے کی دعا شام سے وابستہ ہے درد مندی بھی محبت بھی رواداری بھی کام کتنا دل ناکام سے وابستہ ہے زندگی زد ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی وہ آسماں جناب آئے

    جب بھی وہ آسماں جناب آئے سایہ کرتا ہوا سحاب آئے حرف مٹنے لگے ہیں ذہنوں سے پھر کوئی صاحب کتاب آئے جب کو ڈوبے ہوئے زمانہ ہوا یاد کچھ ایسے آفتاب آئے زندگی بحر بیکراں ہی سہی ہم تو بس صورت حباب آئے جیسے خالی مکاں پہ دستک ہو در و دیوار سے جواب آئے ورق زندگی پلٹتے رہے کامرانی کا ...

    مزید پڑھیے

    وہی بے یقینی کی ہے فضا وہی گرد باد شمال ہے

    وہی بے یقینی کی ہے فضا وہی گرد باد شمال ہے میں چراغ جاں ہوں لیے ہوئے وہی شام شہر ملال ہے وہ مسافتیں بھی گزر گئیں کہ دعا کے پھول تھے ہاتھ میں یہ محبتوں کا دیار ہے یہی میرا مال و منال ہے ترے حرف حرف میں رمز ہے تری گفتگو بھی کمال ہے کبھی مل کے تجھ سے خوشی ملی کبھی تو ہی وجہ ملال ...

    مزید پڑھیے

    ابھی اس تک کہاں پہنچا سمندر

    ابھی اس تک کہاں پہنچا سمندر وہ اپنی ذات میں ایسا سمندر زمیں اوڑھے ہے میری سبز چادر مرے آنچل میں ہے نیلا سمندر مجھے بادل کی محمل میں بٹھا کے تمہارے شہر تک لایا سمندر مرا پیرایۂ اظہار دیکھیں میں ہوں مٹی ہوا شعلہ سمندر مجھے محدود ذہنوں سے شکایت بہت اچھا لگا پھیلا سمندر محبت ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو تم نے نام خدا لیا سبھی رنجشوں کو بھلا دیا (ردیف .. ن)

    وہ جو تم نے نام خدا لیا سبھی رنجشوں کو بھلا دیا مجھے اب یقین یہ آ گیا کہ زمانہ اتنا برا نہیں اسے کب ہمارا خیال ہے مرے دل کو کیوں یہ ملال ہے کبھی اس نے ایسا کہا نہیں کبھی ہم نے ایسا سنا نہیں نہ رقیب ہے نہ حبیب ہے مرا اس سے رشتہ عجیب ہے وہ ملے تو دل کو سکوں ملے نہ ملے تو کوئی گلہ ...

    مزید پڑھیے