سنائے اس نے جب اشعار میرے
سنائے اس نے جب اشعار میرے
کئی مصرعے ہوئے گل بار میرے
سفر دریا کی رو پر منحصر ہے
نہیں ہیں ہاتھ میں پتوار میرے
کہانی میں نمایاں ہو گئے ہیں
وہی ہیں ثانوی کردار میرے
وہ ان راہوں سے ہجرت کر گئے ہیں
شجر جتنے تھے سایہ دار میرے
ہوا منظوم ہو کر آ رہی ہے
ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے
وہاں پر یوں کے مسکن بن گئے ہیں
منقش تھے در و دیوار میرے
لب دریا ہے تصویروں کا میلہ
کھڑے ہیں آئنہ بردار میرے