ابھی اس تک کہاں پہنچا سمندر
ابھی اس تک کہاں پہنچا سمندر
وہ اپنی ذات میں ایسا سمندر
زمیں اوڑھے ہے میری سبز چادر
مرے آنچل میں ہے نیلا سمندر
مجھے بادل کی محمل میں بٹھا کے
تمہارے شہر تک لایا سمندر
مرا پیرایۂ اظہار دیکھیں
میں ہوں مٹی ہوا شعلہ سمندر
مجھے محدود ذہنوں سے شکایت
بہت اچھا لگا پھیلا سمندر
محبت کی جہاں برسی ہے شبنم
دلوں کے ہو گئے صحرا سمندر
مجھے کیا تجربہ کم پانیوں کا
کہ میرا شوق ہے گہرا سمندر
سمجھ لیتا ہے یہ سب دل کی باتیں
پرانے دوستوں جیسا سمندر