ایسے رہتے ہیں اپنے گھر میں اسیر

ایسے رہتے ہیں اپنے گھر میں اسیر
روشنی جیسے بام و در میں اسیر


یوں ہیں فکر و خیال ہم آہنگ
لفظ معنی کے ہے اثر میں اسیر


نام کیا پوچھتے کہ حیراں تھے
ہم ہوئے کیسے اس سحر میں اسیر


بس شباہت تلاش کرنا ہے
وہ ہے خود اپنے ہی ہنر میں اسیر


ہم ہوئے متن میں نظر انداز
صاحب دہر ہے دہر میں اسیر


رنگ کچھ اور ہی ہے عالم کا
جب نظر ہو کسی نظر میں اسیر


سرکشی میں ہے برگ آوارہ
اب تلک تھا کسی شجر میں اسیر


کیا تعین ہو منزلوں کا ابھی
ہر قدم اس کی رہ گزر میں اسیر