Shaista Mufti

شائستہ مفتی

شائستہ مفتی کی غزل

    لکھے ہوئے الفاظ میں تاثیر نہیں ہے

    لکھے ہوئے الفاظ میں تاثیر نہیں ہے دل پر جو کسی عشق کی تحریر نہیں ہے اس زیست کے ہر موڑ پہ لڑنی ہے مجھے جنگ قرطاس و قلم ہیں کوئی شمشیر نہیں ہے ممکن ہی نہیں تھا تجھے آواز لگاتے ہے عشق کی روداد پہ تشہیر نہیں ہے دنیا میں وفا ڈھونڈنے نکلے تھے ندارد اک بوجھ ہے دل پر مرے شہتیر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مضطر تری یادوں میں دیوانہ رہا اکثر

    مضطر تری یادوں میں دیوانہ رہا اکثر انجانا رہا اکثر بیگانہ رہا اکثر سائل کی صدائیں تھیں یا دوست کوئی اپنا شب بھر تری آہٹ کا افسانہ رہا اکثر ہم پر بھی نظر اٹھے ہم سے بھی تکلم ہو خالی تری محفل میں پیمانہ رہا اکثر شاید تری آنکھوں میں اشکوں کا چراغاں ہے گم صم تری ہستی میں پروانہ ...

    مزید پڑھیے

    چاند نکلا تھا پرے بام سے پہلے پہلے

    چاند نکلا تھا پرے بام سے پہلے پہلے اس گلی بھول پڑے شام سے پہلے پہلے بوجھ اک دل پہ لیے صبح سے رنجیدہ ہوں بھر لیے اشک ترے جام سے پہلے پہلے تجھ سے وابستہ ہیں امید کے سائے سائے خواب تو دیکھ لیں انجام سے پہلے پہلے شوخ رنگوں سے مچلتا ہے بہکتا بادل کام آسان ہے آلام سے پہلے پہلے بوئے ...

    مزید پڑھیے

    ایک موسم ہے تری یاد کا کھو جانے دے

    ایک موسم ہے تری یاد کا کھو جانے دے دھوپ کے پاؤں تھکے ہیں ذرا سو جانے دے ترک الفت سے کیا میں نے سفر کا آغاز راستے دشت میں کھو جائیں تو کھو جانے دے جھیل میں عکس وہی ہے جو نظر آتا ہے آنکھ پر نم ہو سر بزم تو ہو جانے دے شام لے آئی ہے پھر شہر کے کوچوں سے پرے دل کی ویرانیاں وحشت میں سمو ...

    مزید پڑھیے

    کسے ڈھونڈھتی ہے محبت کسی کی

    کسے ڈھونڈھتی ہے محبت کسی کی عدم پار ہے اب سکونت کسی کی گزاری ہے عمر رواں خواب جیسے ہے یہ رائیگانی بدولت کسی کی ہیں کچھ زخم جو موتیوں سے جڑے ہیں کہ پھر یاد آئی شباہت کسی کی میں چھو آئی سات آسماں کچھ خبر ہے مگر دل سے نکلی نہ حسرت کسی کی تھی صدیوں سے اک معجزے کی تمنا مجھے راس آئے ...

    مزید پڑھیے

    اجنبی شہر میں الفت کی نظر کو ترسے

    اجنبی شہر میں الفت کی نظر کو ترسے شام ڈھل جائے تو رہ گیر بھی گھر کو ترسے خالی جھولی لیے پھرتا ہے جو ایوانوں میں میرا شفاف ہنر عرض ہنر کو ترسے جس جگہ ہم نے جلائے تھے وفاؤں کے دیئے پھر اسی گاہ پہ دل دار نظر کو ترسے میری بے خواب نگاہیں ہیں سمندر شب ہے وقت تھم تھم کے جو گزرے ہے سحر ...

    مزید پڑھیے

    ان سے ملنے کا ارادہ ہے قضا سے پہلے

    ان سے ملنے کا ارادہ ہے قضا سے پہلے کیوں نہ دل کھول کے جی لوں میں سزا سے پہلے اس حوالے سے ہی شاید اسے پہچان سکوں خود کو پہچان لوں گر اپنے خدا سے پہلے زرد موسم کی تھی تمثیل مری آنکھوں میں رنگ کچھ اور بھی گزرے ہیں خلا سے پہلے وقت معدوم ہے اور دہر کے انداز جدا کچھ بھی ممکن ہے مقدر ...

    مزید پڑھیے

    کاغذی پھول کھلا رکھے ہیں

    کاغذی پھول کھلا رکھے ہیں رشتۂ درد نبھا رکھے ہیں دل برباد نے خاموشی سے کتنے ارمان سلا رکھے ہیں رات کے پچھلے پہر اشکوں سے دیپ سے دیپ جلا رکھے ہیں وہ نہیں جانتے مگر سچ ہے تار دل ان سے ملا رکھے ہیں وہ جو آئے تو ہزاروں شکوے پھر کسی دن پہ اٹھا رکھے ہیں کیا سمجھ پائیں گے غم کو ...

    مزید پڑھیے

    دامن چاک کو سینے کا ہنر رکھتے ہیں

    دامن چاک کو سینے کا ہنر رکھتے ہیں ہیں جو خاموش قرینے کا ہنر رکھتے ہیں گرچہ خالی ہے تری بزم میں اپنا یہ ایاغ ہم مگر آنکھ سے پینے کا ہنر رکھتے ہیں آسمانوں سے ہماری تو کبھی بن نہ سکی ہر ستم زار میں جینے کا ہنر رکھتے ہیں تھی اماوس کی گھنی رات مگر آنکھوں میں اشک خوں اپنے نگینے کا ہنر ...

    مزید پڑھیے

    اے مرے دل یہ ترے در پہ جو دستک سی ہے

    اے مرے دل یہ ترے در پہ جو دستک سی ہے مجھ کو لگتا ہے ہواؤں نے محبت کی ہے میں نے تنہا ہی سنبھالا ہے خزانے کو ترے زندگی تجھ سے ہر اک رنگ میں الفت کی ہے راز اب راز نہیں کوئی تری محفل میں بن پیے بھی ترے لہجے میں جو لرزش سی ہے لوٹ جاتے ہیں سبھی اپنے گھروندوں کی طرف دل ویراں نے سر شام یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3