کاغذی پھول کھلا رکھے ہیں
کاغذی پھول کھلا رکھے ہیں
رشتۂ درد نبھا رکھے ہیں
دل برباد نے خاموشی سے
کتنے ارمان سلا رکھے ہیں
رات کے پچھلے پہر اشکوں سے
دیپ سے دیپ جلا رکھے ہیں
وہ نہیں جانتے مگر سچ ہے
تار دل ان سے ملا رکھے ہیں
وہ جو آئے تو ہزاروں شکوے
پھر کسی دن پہ اٹھا رکھے ہیں
کیا سمجھ پائیں گے غم کو میرے
بت کدے میں جو خدا رکھے ہیں
کوئی تعبیر ملے یا نہ ملے
خواب پلکوں پہ سجا رکھے ہیں