مضطر تری یادوں میں دیوانہ رہا اکثر

مضطر تری یادوں میں دیوانہ رہا اکثر
انجانا رہا اکثر بیگانہ رہا اکثر


سائل کی صدائیں تھیں یا دوست کوئی اپنا
شب بھر تری آہٹ کا افسانہ رہا اکثر


ہم پر بھی نظر اٹھے ہم سے بھی تکلم ہو
خالی تری محفل میں پیمانہ رہا اکثر


شاید تری آنکھوں میں اشکوں کا چراغاں ہے
گم صم تری ہستی میں پروانہ رہا اکثر


کس درجہ محبت سے ہر جا کو سنوارا تھا
محروم تمنا ہی ویرانہ رہا اکثر


اس دل کے سمندر میں ہر سیپ میں موتی ہے
چاہت کا مری اتنا نذرانہ رہا اکثر