Shaista Mufti

شائستہ مفتی

شائستہ مفتی کے تمام مواد

22 غزل (Ghazal)

    بے سہارا نہ چھوڑ جاؤ ہمیں

    بے سہارا نہ چھوڑ جاؤ ہمیں زندگی بھر نہ آزماؤ ہمیں ہم ہی کیوں ڈھونڈتے رہیں تم کو دشت امکاں سے ڈھونڈ لاؤ ہمیں وقت چپ چاپ بہہ نہ جائے کہیں وقت کی لے پہ گنگناؤ ہمیں شام سے دل میں اک اداسی ہے شام وعدہ نہ یاد آؤ ہمیں پھر بھلا کون یاد رکھتا ہے فی‌ زمانہ گلے لگاؤ ہمیں

    مزید پڑھیے

    میرے ہاتھوں میں کچھ گلاب تو ہیں

    میرے ہاتھوں میں کچھ گلاب تو ہیں جو نہ ممکن رہے وہ خواب تو ہیں رنگ بکھرے ہیں چار سو میرے ریگ زاروں میں کچھ سراب تو ہیں تیری چاہت کی آرزو نہ سہی ہم ترے سایۂ عتاب تو ہیں لفظ ڈھلنے لگے ہیں معنی میں زندگی سے ملے جواب تو ہیں روشنی سی رہی درختوں پر جنگلوں پر رہے شباب تو ہیں رات کے ...

    مزید پڑھیے

    حدت شوق سے جلتے ہیں شراروں کے ہجوم

    حدت شوق سے جلتے ہیں شراروں کے ہجوم آسماں سے اتر آئے ہیں ستاروں کے ہجوم غرق ہو جائیں سمندر میں کہیں سوچا تھا ہائے قسمت ہمیں ملتے ہیں کناروں کے ہجوم جان کو اپنی چھڑا لائیں ہیں ویرانوں میں شہر میں جان کو آتے ہیں سہاروں کے ہجوم کتنے پر کیف ہیں رنگین خزاں کے موسم جی جلاتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    نہ توڑو زندگی رشتہ جہاں سے

    نہ توڑو زندگی رشتہ جہاں سے ملے گا پھر کوئی ساتھی کہاں سے جفائیں ہوں کہ دکھ رکھ لو خوشی سے کہ بہتر ہیں یہ عمر رائیگاں سے بہاروں سے نہ اتنا دل لگاؤ کہ وحشت ہو چلے تم کو خزاں سے وہ منظر ریت کے ساحل میں گم ہیں یہی امید تھی آب رواں سے یہ آنکھیں غم سے بوجھل ہو چلی ہیں اتر آئے مسیحا ...

    مزید پڑھیے

    شام آ کر جھروکوں میں بیٹھی رہے

    شام آ کر جھروکوں میں بیٹھی رہے ساعتوں میں سمندر پروتی رہے موسموں کے حوالے ترے نام سے دھوپ چھاؤں مرے دل میں ہوتی رہے جی نہ چاہا تری محفلوں سے اٹھوں بے بسی خالی نظروں سے تکتی رہے تم نے مانگا ہے احساس اس ڈھنگ سے پتھروں کی خموشی پگھلتی رہے یوں گزرتے رہیں یاد کے قافلے میری گلیوں ...

    مزید پڑھیے

تمام

25 نظم (Nazm)

    امر لمحہ

    بارشوں کے موسم میں اجنبی سی راہوں میں اس طرح تمہیں ملنا اور پھر بچھڑ جانا یاد پھر دلاتا ہے کہ ابھی گلابوں کی موتیے کے پھولوں کی شوخ تتلیوں جیسی رت ابھی بھی باقی ہے روح کے سفر میں ہم مل چکے ہیں پہلے بھی ماہ و سال کی گردش پاس لے کے آئی تھی اور پھر یہی گردش دور لے گئی ہم کو زندگی کے ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    وہ سمندر کے پار رہتا ہے اور دل بے قرار رہتا ہے اس کی باتیں جو یاد آتی ہیں دن ڈھلے تک ہمیں ستاتی ہیں رات بھر اک خمار رہتا ہے وہ سمندر کے پار رہتا پے شہر ماتم کناں ہے تیرے بغیر دشت بھی بے اماں ہے تیرے بغیر ہر شجر سوگوار رہتا ہے وہ سمندر کے پار رہتا ہے دوستی بن گئی سزا جیسے اور ہو آپ ...

    مزید پڑھیے

    منوں ریت تلے

    میں جو سوئی ہوں منوں ریت تلے کاش تو جان سکے شام ڈھلے میری آنکھیں تری آہٹ پہ لگی رہتی ہیں میرا آنچل میری ترسی ہوئی بے کل ہستی میری ممتا تری راہوں میں بچھی رہتی ہے میں بہت خوش ہوں تجھے دیکھ کے اے دل کے قرار تیرے چہرے کی چمک آج بھی تابندہ ہے تیرے لہجے میں مرا عکس ابھی زندہ ہے میں جو ...

    مزید پڑھیے

    سکھی

    آج آؤ سکھی بتاؤں تجھے ان کہی بات ہے سناؤں تجھے کیسے ٹوٹا ملن کا خواب مرا دشت میں رہ گیا سراب مرا تم ملی ہو تو آج سوچتی ہوں پردۂ راز کو اٹھا ہی دوں آج آؤ سکھی بتا ہی دوں دل دھڑکتا ہے اور یہ جنبش بھی ایک ناکام آرزو لے کر شام وعدہ کی جستجو لے کر یوں ہی دم بھر کو مسکراتا ہے اور پھر ڈوب ...

    مزید پڑھیے

    شریک غم

    بہت مغرور ہو تم بھی محبت کو سمجھتے ہو کہ جیسے دھول پاؤں کی کہ جیسے خاک راہوں کی مگر جاناں ذرا سوچو رکو لمحے کو اور دیکھو کہیں ایسا نہ ہو جائے تمہارا دل بدل جائے ستائے یاد چاہت کی یہ آنسو روگ بن جائیں تمہیں اور ہم کو تڑپائیں ذرا ٹھہرو مری سن لو کہ میں تم کو سمجھتی ہوں ذرا تم سے ...

    مزید پڑھیے

تمام