حدت شوق سے جلتے ہیں شراروں کے ہجوم

حدت شوق سے جلتے ہیں شراروں کے ہجوم
آسماں سے اتر آئے ہیں ستاروں کے ہجوم


غرق ہو جائیں سمندر میں کہیں سوچا تھا
ہائے قسمت ہمیں ملتے ہیں کناروں کے ہجوم


جان کو اپنی چھڑا لائیں ہیں ویرانوں میں
شہر میں جان کو آتے ہیں سہاروں کے ہجوم


کتنے پر کیف ہیں رنگین خزاں کے موسم
جی جلاتے ہیں بہاراں میں بہاروں کے ہجوم


ایک منظر کہ رہی یاد ہمیشہ ہم کو
گرچہ وابستہ رہے ہم سے نظاروں کے ہجوم


دل کی وابستگی اک شخص سے مشروط رہی
یوں تو ملتے ہی رہے زیست میں یاروں کے ہجوم


آج اس شہر خموشاں میں چلے آئے ہیں
زندگی تو نے بسائے ہیں یہ پیاروں کے ہجوم


یوں ہی چپ چاپ پلٹ آئے ہیں خاموشی سے
ہم سے دیکھے نہ گئے درد کے ماروں کے ہجوم


دشت میں یوں ملا کرتے ہیں محبت سے ہمیں
پاؤں دھرتے ہیں تو ملتے ہیں یہ خاروں کے ہجوم