نہ توڑو زندگی رشتہ جہاں سے

نہ توڑو زندگی رشتہ جہاں سے
ملے گا پھر کوئی ساتھی کہاں سے


جفائیں ہوں کہ دکھ رکھ لو خوشی سے
کہ بہتر ہیں یہ عمر رائیگاں سے


بہاروں سے نہ اتنا دل لگاؤ
کہ وحشت ہو چلے تم کو خزاں سے


وہ منظر ریت کے ساحل میں گم ہیں
یہی امید تھی آب رواں سے


یہ آنکھیں غم سے بوجھل ہو چلی ہیں
اتر آئے مسیحا آسماں سے


مری خاموشیاں مجرم بنیں ہیں
سبب ہوگا ادا کیسے زباں سے