Shaista Habeeb

شائستہ حبیب

شائستہ حبیب کی نظم

    تیرے نینوں کی خیر

    میں جب پلکوں کے دروازوں پہ اتروں تو روشنیوں سے جھولی بھر لوں یہ سارے انوکھے دکھ بھرے دن میرے حافظے کی تختی سے مٹ مٹ جائیں گے اک پاگل امنگ بھرا دن ہوگا جب تو اندھیروں کی بستی سے نور کے رستے پر چلتا ہوا شہر میں اپنی آمد کا اعلان کرے گا تب سارے پرندے اپنے گھونسلوں سے باہر آ کر تمہیں ...

    مزید پڑھیے

    اپنی پہچان

    دانشوری ساری عقلوں کا اشتہار ایک طرف اور جذبوں کا بازار ایک طرف لوگوں کو پہچاننے ان کو جاننے کے لئے کیا اب اکادمی قائم ہوگی ہم سب کو اچھا کہنے والے لوگ ہماری اپنی پہچان جانے کس کے حوالے سے ہوگی ہماری زرد چہروں سے اور حیران آنکھوں سے کہ تماشا ہماری آنکھوں کے سامنے صدمے کی طرح ہو ...

    مزید پڑھیے

    پیاس

    جی میں ہے کہ جل تھل برسوں پر یہ آنسو کس کس نام سے روؤں گی اک آنسو پر نام ہے اس کا جس کے ہاتھ سوالی ہیں اک آنسو ہے اس کے نام جو سردی میں کہر زدہ ان سڑکوں پر بھوکوں مرتا ہے یہ لمبی کالی کاروں میں کون سی دنیا بیٹھتی ہے کیا نام ہے ان کا کون ہیں وہ کیا بیچتے ہیں اور سرخ گلابی ہونٹوں پر یہ ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    آنکھیں اندھے کنویں کی مانند دور اندھیرے رستوں پر پانی کو کھرچ رہی ہیں گہری دھند کی چادر اوڑھے کون ابھاگن پھوٹ پھوٹ کے رو بھی نہ پائی صبر کی روٹی چپ کا سالن سب ذائقوں سے کڑوا زہر گلے کے اندر کند چھری کی مانند اٹکے کیا بولے سارے لفظ اپنے لہو کی گردش سے بے پروا لب پر اتریں معانی کے ...

    مزید پڑھیے

    خواب کی باتیں

    جیسے دکھ بھرے دن آتے ہیں ہاتھوں میں ایسے بے بس آنسو آتے ہیں آنکھوں میں خواب نہیں آتے خواب کی باتیں خواب کی خواہش میں دکھ کے دن کو اوڑھ کے سو جائیں پر آنسو برس برس کے سونے بھی نہ دیں غریب کی کٹیا کی طرح جگہ جگہ سے پانی ٹپکے جل تھل سارے گھر میں پھر خوشیوں کے پتوں کو کن درختوں پہ جا کر ...

    مزید پڑھیے

    پیاسی روح

    پیاسی روح کو بولتے کس نے سنا ہے ٹیلی ویژن کے پردے پر جو تصویریں سنتے ہو وہ بھی نظر کا دھوکا ہے میں تو اپنی بند آنکھوں کے اندر پورا ٹی وی اسٹیشن چلتے پھرتے دیکھتی ہوں پھر دیکھنا اور کچھ کہنا دونوں باتیں ایک نہیں ہیں ویسے بھی تو ہم کو دیکھنے والے اپنے اپنے لینس سے دیکھ کے اپنے تئیں ...

    مزید پڑھیے

    جاگتے رہنا

    رات کو پہرے دار کی دستک اک آواز ہے جاگتے رہنا صبح کو روٹی اور عزت کی خاطر بھاگتے رہنا کس یگ ملے امان کوئی جان نہ پایا جاگتے رہنا بھاگتے رہنا

    مزید پڑھیے

    ملن

    میں ہواؤں کے سنگ آج بادلوں کی جھانجھریں پہن کر زمین پر اتری ہوں وصال کے لمحوں کا کوئی انت نہیں میرے چاروں طرف قطرے گھنگروؤں کی طرح چھن چھن ناچ رہے ہیں اور میں تتلیوں کی طرح رنگوں سے کھیلتی تمہارے گلے سے آ لگی ہوں انتظار کے دن اور رات میرے حافظے سے نکل گئے ہیں کہ میں نے کتنی راتوں ...

    مزید پڑھیے

    دو آر ڈائی

    گئے زمانوں کی گردشوں کو میں آنکھ کی پتلیوں میں رکھوں میں کب تلک ہونے اور نہ ہونے کے درمیاں کی اذیتوں کی خراش اپنے بدن پہ دیکھوں میں کس لئے بام پر سجاؤں کنواری شرمیلی دھڑکنیں اب میں کیسے اپنے لبوں کی خوشبو کا بار لے کر صنوبروں کا سماں بناؤں میں کس لئے رادھا بن کے ناچوں تو شام مرلی ...

    مزید پڑھیے

    دائرے

    اونچے مکانوں کی دیواروں پر ہری بھری پھولوں کی بیل سرمئی بادلوں کے گھونگھٹ سے میری چھوٹی کھڑکی کی طرف دیکھتی ہے پرسیوایڈرس ٹی وی پر فلم چل رہی ہے میں کس کے تعاقب میں اپنی طرف بھاگ رہی ہوں میں کولہو کا بیل ہوں روز ایک دائرہ اپنے ارد گرد کھینچتی ہوں اور اس دائرے کے آگے ایک اور دائرہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2