پیاس
جی میں ہے کہ جل تھل برسوں
پر یہ آنسو کس کس نام سے روؤں گی
اک آنسو پر نام ہے اس کا
جس کے ہاتھ سوالی ہیں
اک آنسو ہے اس کے نام
جو سردی میں کہر زدہ ان سڑکوں پر بھوکوں مرتا ہے
یہ لمبی کالی کاروں میں کون سی دنیا بیٹھتی ہے
کیا نام ہے ان کا کون ہیں وہ
کیا بیچتے ہیں
اور سرخ گلابی ہونٹوں پر یہ گیت ہیں کیوں
پر ٹاٹ کے پیچھے حیراں حیراں زرد سے چہرے
آنکھوں میں سپنوں کے روزن
سپنے میٹھی روٹی کے
ہر رات کو چھپ کر آتے ہیں
اور دن کو
گھر گھر گھی سے لتھڑے چینی کے برتن کو دھونے کی خاطر
کون بھلا اب پانی گرم کرے
راکھ اجڑے سپنوں کی
اور نمکین گرم پانی ان آنکھوں کا
بیگم صاحبا کی گھر کی
اور صاحب کی لاڈ بھری آنکھیں
لوگو
ان سے کب سیندور بھری مانگوں اور چھن چھن کرتی رنگ برنگی
چوڑیوں کو پھر جی بھر کے دیکھا ہے کبھی
یہ لو پانی برس رہا ہے
پانی کھارا میٹھا اور کسیلا پانی
دھواں بن کر گلے میں اٹک رہا ہے
تھوڑا کھانس ہی لو
یہ چاہت ہی پھندا بن کر آنسو کے رستے سے نکلے
ہر آنسو کس کس نام کے
اس کے اس کے
اپنے تمہارے کل کے آج کے یا پھر آنے والی کل کے
جو صاف سلیٹ کی مانند گم صم ہے
اور میں سارے سمندر آنسو پی کر پیاسی ہی رہ جاتی ہوں