Shaista Habeeb

شائستہ حبیب

شائستہ حبیب کی نظم

    میرے بھی کچھ خواب

    میرے بھی کچھ خواب ہیں جن کو میں جذبوں کا خون دے کر پال رہی ہوں کیا تمہیں کوئی اعتراض ہے اجلے دنوں اور چاندنی چمکتی راتوں کی آس مجھے پروا کی طرح کہاں کہاں نہیں لئے پھرتی میرے خواب شیشے کی طرح خوب صورت اور نازک انہیں مت چھوؤ کہ ہاتھ لگنے سے میلے نہ ہو جائیں بس تم دور سے اس کی خوشبو ...

    مزید پڑھیے

    کرموں کا پھل

    ہمارے کرموں کا پھل ہمارے سامنے ہے بھائی نیکی کرنا پاپ ہے تم نے نہیں سنا کہ یہ اگلے وقتوں کی بات ہے تم کو دنیا میں رہنے کا ڈھب کب آئے گا جنگلی سارے ناطے خوشبوؤں کی طرح نہیں ہوتے ان میں دلدلوں کی بساند بھی ہوتی ہے معاف کرنا یا معافی مانگنا کوئی اچھا فعل نہیں ہے معافی بھلا کس کس بات ...

    مزید پڑھیے

    موت میری سکھی

    موت میری سکھی میرے ہی سنگ آنگن میں کھیلی بڑھی میری پوشاک میرے دوپٹے پہ وہ اپنے ہی پیارے ہاتھوں سے چاند اور تارے اگاتی رہی زندگانی سے مجھ کو لڑاتی رہی موت میری سکھی میرے ہی سنگ کھانے کے لقمے بھرے میں بھری چاند راتوں میں مٹی کی کوری صراحی سے پانی پلاتی رہی سردیوں کی ٹھٹھرتی سیاہ ...

    مزید پڑھیے

    دکھ کا ذائقہ

    میرے لوگو دکھ سے سمجھوتہ نہ کرنا ورنہ دکھ بھی کڑواہٹوں کی طرح تمہارے ذائقے کا حصہ بن جائے گا تم دکھ کے بارے میں غور کرنا اس کی ماہیت جاننا اس کی تم ڈرائنگ کرنا اور سر جوڑ کر اس تصویر سے باتیں کرنا گلی کے باہر میدانوں میں کھیتوں میں گھر کی چھتوں کے اوپر ہر طرف باتیں کرنا دکھ کی آنے ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    آنکھیں اندھے کنویں کی مانند دور اندھیرے رستوں پر پانی کو کھرچ رہیں ہیں گہری دھند کی چادر اوڑھے کون ابھاگن پھوٹ پھوٹ کے رو بھی نہ پائی صبر کی روٹی چپ کا سالن سب ذائقوں سے کڑوا زہر گلے کے اندر کند چھری کی مانند اٹکے کیا بولے سارے لفظ اپنے لہو کی گردش سے بے پرواہ لب پر اتریں معافی کے ...

    مزید پڑھیے

    میلا کپڑا

    بادل بادل اس کے قطرے گہری اداس چھاؤں ہوائیں بیوہ کی چوڑیوں کی طرح سے چھن چھن ٹوٹ رہی ہیں یہ کیسا ساون ہے دل میں کالا ناگ یاں ڈنک مارتا ہے میں بادل روؤں کہ خون تھوکوں خون کہ قطرہ قطرہ رات کے خوف سے خشک ہوا ہے رات مجھے اپنے ہاتھ سے مسل رہی ہے میں میلا کپڑا ہوں جو نہ پہننے کے کام آئے ...

    مزید پڑھیے

    لہو کا خراج

    زرد ہاتھوں پر کالی لکیریں پھیل رہی ہیں دل کے نہال پر جذبوں کے پنچھی کالی اندھیری راتوں میں ناچ ناچ کے تھک جاتے ہیں آنکھ کنارے آ گئی کائی بڑھتی ہے روشن صبحوں کی آوازیں بے بس چیخوں کو کیسے روکیں ہر دن اپنے ہونے کی پہچان میں گم صم شرمندہ کونوں میں منہ کو چھپائے روتا ہے کس کی آس میں ...

    مزید پڑھیے

    تم مجھے نہیں پاؤ گے

    تم سب لوگ مجھے قطرہ قطرہ دریا میں بہا دو میرے وجود کو تار تار کرکے دیکھو پھر بھی تمہیں میری روح تک پہنچنے کے لیے اپنی کمیں گاہوں کے رستے سے گزرنا ہوگا تم مجھے نہیں پاؤ گے اس لیے کہ میں تم میں سے نہیں ہوں مجھے تمہارے گھر صرف ایک آبزرور کی حیثیت سے رکھا گیا ہے تاکہ تمہاری منافقتوں ...

    مزید پڑھیے

    تم آؤ گے

    میرے گھر کی دیواریں اب مجھ کو چاٹ رہی ہیں سارے شہر کی مٹی میں جو میرا حصہ تھا وہ بھی لوگوں میں تقسیم ہوا ہے اپنی اس کی قبر پر میری آنکھیں اڑتی دھول کی خوشبو تھامے لٹک کر لیٹ گئی ہیں ایسے سمے اب کون آتا ہے ٹیڑھی ترچھی انگلیوں میں سارے وفا کے دھاگے ہلکے ہلکے ٹوٹ رہے ہیں ہڈیوں کے جلنے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2