ایک نظم

آنکھیں اندھے کنویں کی مانند دور اندھیرے رستوں پر پانی کو کھرچ رہی ہیں
گہری دھند کی چادر اوڑھے کون ابھاگن
پھوٹ پھوٹ کے رو بھی نہ پائی
صبر کی روٹی چپ کا سالن سب ذائقوں سے کڑوا زہر گلے کے اندر
کند چھری کی مانند اٹکے
کیا بولے سارے لفظ اپنے لہو کی گردش سے بے پروا
لب پر اتریں
معانی کے چھلکوں کو اتاروں ننگی روحیں کچھ نہ کہیں گی
دنیا سب کچھ اس کو
واپس کچھ بھی نہ لینا ہاتھ تمہارے سدا ہی بھرے رہیں گے جذبوں کے پھولوں سے
مت کچھ کہنا ورنہ سارا ملبہ تمہارے اوپر آن گرے گا
کچی دیواروں کے ناطے تصویروں کے رنگوں سے بھی کچے
ہاتھوں اور زبانوں پر گزری باتوں کے سارے سکھ اک اک کر کے مٹتے جاتے ہیں
من کی ساری شکتی بیچ سمندر ڈوب گئی ہے
ہوا میں آنسو گیس کے گولے چھوٹیں تو سب رونا ایک ہی وقت رو لیں
تیاگ کا لمبا رستہ بانہیں پھیلائے اپنی اور بلاتا ہے
آگے جاؤ سب کچھ سنو
آؤ اس آواز کے رستے پر چلتے جائیں
دیوار دور سے دور