ملن

میں ہواؤں کے سنگ آج بادلوں کی جھانجھریں پہن کر زمین پر اتری ہوں
وصال کے لمحوں کا کوئی انت نہیں
میرے چاروں طرف قطرے گھنگروؤں کی طرح چھن چھن ناچ رہے ہیں
اور میں تتلیوں کی طرح رنگوں سے کھیلتی تمہارے گلے سے آ لگی ہوں
انتظار کے دن اور رات میرے حافظے سے نکل گئے ہیں
کہ میں نے کتنی راتوں کو تکیوں پر اپنی بے بسی کو تحریر کیا تھا
آج تو ساون کا موسم بھی مجھے گواہی دے رہا ہے
کہ میں اکیلی نہیں ہوں
میں خوشبو دار بوجھل ہوا کی طرح کبھی اس درخت سے کبھی
کھڑکی کے پردوں سے ٹکرا رہی ہوں دیوانہ وار