شہزاد نیر کی غزل

    خود سے ہے رنج بیانی اپنی

    خود سے ہے رنج بیانی اپنی کان اپنے ہیں کہانی اپنی روز دیوار پہ دستک دینا بات پتھر کو سنانی اپنی عمر اوروں کو ہی رٹتے گزری بھول بیٹھا ہوں نشانی اپنی دن کو سوچوں کی چتا پر جلنا رات کو راکھ اٹھانی اپنی گل بدن باغ فقط تیرا ہے نشہ اپنا ہے جوانی اپنی روبرو تیرے برا بن جانا ہم کو خود ...

    مزید پڑھیے

    ایسے بے مہر زمانے سے وفا مانگتا ہے

    ایسے بے مہر زمانے سے وفا مانگتا ہے دل بھی سادہ ہے خلاؤں میں ہوا مانگتا ہے اس کا ہم عشق پرستوں سے تقابل کیسا شیخ تو اپنی عبادت کا صلہ مانگتا ہے جا کسی اور سے لے نسبت افلاک میاں ہم زمیں زاد فقیروں سے یہ کیا مانگتا ہے محتسب دامن تعزیر کشادہ رکھنا شہر کا شہر بغاوت کی سزا مانگتا ...

    مزید پڑھیے

    دم بہ دم گردش دوراں کا گھمایا ہوا شخص

    دم بہ دم گردش دوراں کا گھمایا ہوا شخص ایک دن حشر اٹھاتا ہے گرایا ہوا شخص میں تو خود پر بھی کفایت سے اسے خرچ کروں وہ ہے مہنگائی میں مشکل سے کمایا ہوا شخص یاد آتا ہے تو آتا ہی چلا جاتا ہے کار بے کار زمانہ میں بھلایا ہوا شخص دشت بے آب میں آواز نہ الفاظ کہیں ہر طرف دھوپ تھی پھر پیڑ ...

    مزید پڑھیے

    شکستہ چھت میں پرندوں کو جب ٹھکانہ ملا

    شکستہ چھت میں پرندوں کو جب ٹھکانہ ملا میں خوش ہوا کہ مرے گھر کو بھی گھرانا ملا فلک پہ اڑتے ہوئے بھی نظر زمیں پہ رہی مزاج مجھ کو مقدر سے طائرانہ ملا ہم اس کے حسن سخن کی دلیل کیا دیں گے وہ جتنی بار ملا ہم سے برملا نہ ملا کسی کی دیکھتی آنکھیں بھی آس پاس رہیں تجھے ملا تو بہ احساس ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک گام پہ صدیاں نثار کرتے ہوئے

    ہر ایک گام پہ صدیاں نثار کرتے ہوئے میں چل رہا تھا زمانے شمار کرتے ہوئے یہی کھلا کہ مسافر نے خود کو پار کیا تری تلاش کے صحرا کو پار کرتے ہوئے میں رشک ریشۂ گل تھا بدل کے سنگ ہوا بدن کو تیرے بدن کا حصار کرتے ہوئے مجھے ضرور کنارے پکارتے ہوں گے مگر میں سن نہیں پایا پکار کرتے ...

    مزید پڑھیے

    تجھ کو گلہ ہے تیرا مقدر نہیں ہوا

    تجھ کو گلہ ہے تیرا مقدر نہیں ہوا میں اپنے آپ کو بھی میسر نہیں ہوا ہونا نہ ہونا میں نے رکھا اپنے ہاتھ میں دم بھر جہاں میں ہو گیا دم بھر نہیں ہوا پہلے تو قیل و قال میں ہوتا نہیں تھا میں پھر یوں ہوا کہ حرف سے باہر نہیں ہوا آنکھوں کو اس کا دیکھنا منظور بھی نہیں ناظر ہی جو رہا کبھی ...

    مزید پڑھیے

    خاموش صداؤں سے نہ پیغام سے آیا

    خاموش صداؤں سے نہ پیغام سے آیا وہ حسن مرے پاس کسی کام سے آیا آیا تو نظر آیا مجھے خار ضرورت ہائے وہ گل خاص رہ عام سے آیا جب رات ڈھلی یاد جگر چیر کے گزری ویسے تو خیال اس کا مجھے شام سے آیا آنچل سے ابھر آئے ہیں جوبن کے خم و پیچ اس شعر میں ابلاغ بھی ابہام سے آیا یہ پھول مرے قرب کے ...

    مزید پڑھیے

    مرے روگ کا نہ ملال کر مرے چارہ گر

    مرے روگ کا نہ ملال کر مرے چارہ گر میں بڑا ہوا اسے پال کر مرے چارہ گر سبھی درد چن مرے جسم سے کسی اسم سے مرا انگ انگ بحال کر مرے چارہ گر مجھے سی دے سوزن درد، رشتۂ زرد سے مجھے ضبط غم سے بحال کر مرے چارہ گر مجھے چیر نشتر عشق سوز سرشک سے مرا اندمال محال کر مرے چارہ گر یہ بدن کے عارضی ...

    مزید پڑھیے

    چہچہاتی بولتی آنکھوں کا اونچا شور ہے

    چہچہاتی بولتی آنکھوں کا اونچا شور ہے شام کے دھندلے شجر پر کتنا اچھا شور ہے آشنائی کا سفر تھا اور کتنی خامشی واپسی کا راستہ ہے اور کتنا شور ہے ذات کی تنہائی میں کوئی نہیں ہوتا شریک بند ہیں گاڑی کے شیشے اندر اپنا شور ہے دور کے دالان سے آتی صداؤں کی مہک اور ابلتے چاولوں کا دھیما ...

    مزید پڑھیے

    کس حقیقت کا انکشاف کیا

    کس حقیقت کا انکشاف کیا دل نے مجھ کو مرے خلاف کیا میرے ہونے کا اعتراف کیا مجھ سے جس نے بھی اختلاف کیا تو نے مجھ کو معاف کر ڈالا میں نے خود کو نہیں معاف کیا آنکھ میں گرد خود نمائی تھی پھر مجھے آئنے نے صاف کیا ایک صورت دکھائی دینے لگی میں نے دل میں عجب شگاف کیا ایک دنیا تباہ کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2