شہزاد نیر کی نظم

    بلندی کی پیمائش

    جتنے اونچے ہیں اتنے ہی خاموش ہیں کن پہاڑوں میں رہنا پڑا ہے مجھے سارے اپنی بڑائی کی دھن میں مگن دیکھتے جا رہے ہیں مگر بات کرتے نہیں بات کرتے ہیں تو خود سے آگے کوئی لفظ کہتے نہیں! اپنے ہی بوجھ سے میری خاموشی کوزہ کمر ہو گئی۔۔۔ تو چلی اک بڑی خامشی کی طرف اور مری ننھی سی خامشی نے ...

    مزید پڑھیے

    کفن چور

    کچھ نہیں، گھر میں مرے کچھ بھی نہیں کوئی کپڑا کہ حرارت کو بدن میں رکھتا لقمۂ نان جویں، خون کو دھکا دیتا من کو گرماتا سکوں، تن سے لپٹتا بستر کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں! رات کو جسم سے چپکاتی ہوئی سرد ہوا جسم کے بند مساموں میں اترتی ٹھنڈک سنگ مرمر سی ہوئیں خون ترستی ...

    مزید پڑھیے

    سرخ گلابوں کے موسم میں

    بہت بے رنگ سے دن ہیں ترے گلنار گالوں کے گلابی پھول کھلتے ہیں نہ تیرے پھول ہونٹوں سے ملن کی شوخ باتوں کے سنہری رنگ میں لپٹی کوئی تتلی ہی اڑتی ہے نہ دن کے زرد کاغذ پر تری تصویر بنتی ہے نہ شب کی کالی چادر پر تری آنکھیں چمکتی ہیں نہ تیری مسکراہٹ کی کرن ملنے کو آتی ہے رگوں کے سرد غاروں ...

    مزید پڑھیے