چہچہاتی بولتی آنکھوں کا اونچا شور ہے

چہچہاتی بولتی آنکھوں کا اونچا شور ہے
شام کے دھندلے شجر پر کتنا اچھا شور ہے


آشنائی کا سفر تھا اور کتنی خامشی
واپسی کا راستہ ہے اور کتنا شور ہے


ذات کی تنہائی میں کوئی نہیں ہوتا شریک
بند ہیں گاڑی کے شیشے اندر اپنا شور ہے


دور کے دالان سے آتی صداؤں کی مہک
اور ابلتے چاولوں کا دھیما دھیما شور ہے


وہ ہے خالی گھر کی صورت میں بھرا بازار ہوں
اس کے جیسی خامشی ہے میرے جیسا شور ہے


شہر سے بہتر تو ویرانے کا سناٹا ہی تھا
کیسی کیسی بولیاں ہیں کیسا کیسا شور ہے


ختم کر ڈالے گا اک پل میں سکوت بے دلی
کھیل کے میدان سے آیا ہے زندہ شور ہے


رات کے پچھلے پہر کا بے صدا جنگل سمجھ
میری خاموشی کے اندر بے تحاشا شور ہے


اس طرف آتا نہیں کوئی کہ اس سے پوچھ لوں
آسماں کے پار سے اٹھتا یہ کیسا شور ہے


کان میں کہرام دل میں کھولتی آواز کا
لوگ لب بستہ ہیں چہروں سے ابلتا شور ہے


ہاؤ ہو فریاد چیخیں نالۂ دل داد گاں
جھوٹ ہیں سارے دلاسے اور سچا شور ہے