خاموش صداؤں سے نہ پیغام سے آیا

خاموش صداؤں سے نہ پیغام سے آیا
وہ حسن مرے پاس کسی کام سے آیا


آیا تو نظر آیا مجھے خار ضرورت
ہائے وہ گل خاص رہ عام سے آیا


جب رات ڈھلی یاد جگر چیر کے گزری
ویسے تو خیال اس کا مجھے شام سے آیا


آنچل سے ابھر آئے ہیں جوبن کے خم و پیچ
اس شعر میں ابلاغ بھی ابہام سے آیا


یہ پھول مرے قرب کے موسم نے کھلائے
یہ رنگ ترے رخ پہ مرے نام سے آیا


تکتا ہوں امارت کی فلک بوس عمارت
افلاس مرے گھر میں اسی بام سے آیا


شہرت جو ملی تجھ کو برے کام نے دی ہے
جو نام ترے پاس ہے دشنام سے آیا


کھٹکے سے کھٹک جائے نہ دل دار سو نیرؔ
آرام گہ حسن میں آرام سے آیا