خود سے ہے رنج بیانی اپنی

خود سے ہے رنج بیانی اپنی
کان اپنے ہیں کہانی اپنی


روز دیوار پہ دستک دینا
بات پتھر کو سنانی اپنی


عمر اوروں کو ہی رٹتے گزری
بھول بیٹھا ہوں نشانی اپنی


دن کو سوچوں کی چتا پر جلنا
رات کو راکھ اٹھانی اپنی


گل بدن باغ فقط تیرا ہے
نشہ اپنا ہے جوانی اپنی


روبرو تیرے برا بن جانا
ہم کو خود خاک اڑانی اپنی


میں کیے جاتا ہوں اپنی باتیں
وہ سناتا ہے کہانی اپنی


ہار کر صلح عدو سے نیرؔ
آبرو جھک کے اٹھانی اپنی