تجھ کو گلہ ہے تیرا مقدر نہیں ہوا
تجھ کو گلہ ہے تیرا مقدر نہیں ہوا
میں اپنے آپ کو بھی میسر نہیں ہوا
ہونا نہ ہونا میں نے رکھا اپنے ہاتھ میں
دم بھر جہاں میں ہو گیا دم بھر نہیں ہوا
پہلے تو قیل و قال میں ہوتا نہیں تھا میں
پھر یوں ہوا کہ حرف سے باہر نہیں ہوا
آنکھوں کو اس کا دیکھنا منظور بھی نہیں
ناظر ہی جو رہا کبھی منظر نہیں ہوا
سوچا کہ اپنے جسم سے باہر بھی ہو رہوں
میں اٹھ کے خاک سے بھی ہوا پر نہیں ہوا
آخر مجھے سراب نے سیراب کر دیا
میں جو سمندروں سے کبھی تر نہیں ہوا
ہوتا رہا وہی جو نہیں ہونا چاہیے
ہونا جو چاہیے تھا وہ اکثر نہیں ہوا
گھوما تو اپنے آپ تلک آ کے رک گیا
میں دائرہ تو ہو گیا چکر نہیں ہوا
سب کو دکھائی دے گیا وہ حسن بے ظہور
سب پر یہ لطف ہو گیا مجھ پر نہیں ہوا
میں کہہ سکوں کہ دہر میں وہ بھی ہے میں بھی ہوں
اتنا یقین مجھ کو میسر نہیں ہوا
دستک بھی دے کے دیکھ لی سر بھی پٹخ لیا
دیوار ہی رہا وہ کبھی در نہیں ہوا
غارت گری کو دیکھ کے اہل یقین کی
میں دیکھتا ہوں اس کو جو کافر نہیں ہوا
پہلی نظر کو اس نے بھی دیکھا نہ غور سے
ہم سے بھی التفات مکرر نہیں ہوا
پتھر مزاج ہے تو میاں سنگ میل بن
جو راستے میں ہو کے بھی ٹھوکر نہیں ہوا
آہستہ رو وہ آج بھی اپنی روش پہ ہے
سب یار تیز ہو گئے نیرؔ نہیں ہوا