چپکے سے ادھر آ جاؤ
دروازۂ جاں سے ہو کر چپکے سے ادھر آ جاؤ اس برف بھری بوری کو پیچھے کی طرف سرکاؤ ہر گھاؤ پہ بوسے چھڑکو ہر زخم کو تم سہلاؤ میں تاروں کی اس شب کو تقسیم کروں یوں سب کو جاگیر ہو جیسے میری یہ عرض نہ تم ٹھکراؤ چپکے سے ادھر آ جاؤ
ممتاز جدید شاعروں میں شامل، نغمہ نگار، فلم ’امراؤ جان‘ کے گیتوں کے لیے مشہور۔ بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ۔
One of the most prominent modern Urdu poets and lyricist. Wrote songs for the movie "Umrao Jaan". Recipient of the Bhartiya Gyan Peeth award.
دروازۂ جاں سے ہو کر چپکے سے ادھر آ جاؤ اس برف بھری بوری کو پیچھے کی طرف سرکاؤ ہر گھاؤ پہ بوسے چھڑکو ہر زخم کو تم سہلاؤ میں تاروں کی اس شب کو تقسیم کروں یوں سب کو جاگیر ہو جیسے میری یہ عرض نہ تم ٹھکراؤ چپکے سے ادھر آ جاؤ
جو کچے رستوں سے پکی سڑکوں کا رخ کیا تھا کھڑاؤں اپنی اتار دیتے بدن کو کپڑوں سے ڈھانپ لیتے تمہاری سیراب پنڈلیوں پر نشان جتنے ہیں کہہ رہے ہیں کہ تم نے راتوں کو رات سمجھا ہر ایک موسم میں اس کی نسبت سے پھل اگائے بدن ضرورت غذا ہمیشہ تمہیں ملی ہے نہ جانے افتاد کیا پڑی ہے جو کچے رستوں سے ...
رات کا یہ سمندر تمہارے لیے تم سمندر کی خاطر بنے ہو دلوں میں کبھی خشکیوں کی سحر کا تصور نہ آئے اسی واسطے تم کو بے بادباں کشتیاں دی گئی ہیں سفر رات کے اس سمندر کی گہرائیوں کا سفر بیکراں ہے اکیلے ہو تم اور اکیلے رہوگے مگر آسماں کی جگہ آسماں اور زمیں کی جگہ یہ زمیں تم سے قائم ہے دائم ...
پھر تری تتلی نما صورت مجھے یاد آ گئی مجھ کو وہ لمحہ ابھی بھولا نہیں ایک کونے میں کئی لوگوں کے ساتھ گفتگو میں منہمک کھویا ہوا میری آنکھوں نے کبھی تجھ سا کوئی دیکھا نہ تھا میں تجھے تکنے لگا دیر تک تکتا رہا آنکھ سے کانوں سے ہونٹوں سے تجھے تکتا رہا کیا عجب دیوانگی تھی رشک آیا بخت پہ ...
دن کے صحرا سے جب بنی جاں پر ایک مبہم سا آسرا پا کر ہم چلے آئے اس طرف اور اب رات کے اس اتھاہ دریا میں خواب کی کشتیوں کو کھیتے ہیں!
ابھی نہیں ابھی زنجیر خواب برہم ہے ابھی نہیں ابھی دامن کے چاک کا غم ہے ابھی نہیں ابھی در باز ہے امیدوں کا ابھی نہیں ابھی سینے کا داغ جلتا ہے ابھی نہیں ابھی پلکوں پہ خوں مچلتا ہے ابھی نہیں ابھی کم بخت دل دھڑکتا ہے
میرے لیے رات نے آج فراہم کیا ایک نیا مرحلہ نیندوں سے خالی کیا اشکوں سے پھر بھر دیا کاسہ مری آنکھ کا اور کہا کان میں میں نے ہر اک جرم سے تم کو بری کر دیا میں نے سدا کے لیے تم کو رہا کر دیا جاؤ جدھر چاہو تم جاگو کہ سو جاؤ تم خواب کا در بند ہے
رات کا بیتنا دن کا آنا کون سی ایسی نئی بات ہے جس پر ہم سب اتنے افسردہ ہیں کھڑکی کھولو اس طرف سامنے دیکھو وہ کھڑی ہے چھت پر
ہوا کا تعاقب کبھی چاند کی چاندنی کو پکڑنے کی خواہش کبھی صبح کے ہونٹ چھونے کی حسرت کبھی رات کی زلف کو گوندھنے کی تمنا کبھی جسم کے قہر کی مدح خوانی کبھی روح کی بے کسی کی کہانی کبھی جاگنے کی ہوس کو جگانا کبھی نیند کے بند دروازے کو کھٹکھٹانا کبھی صرف آنکھیں ہی آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں ...
مہیب لمبے گھنے پیڑوں کی ہری شاخیں کبھی کبھی کوئی اشلوک گنگناتی تھیں کبھی کبھی کسی پتے کا دل دھڑکتا تھا کبھی کبھی کوئی کونپل درود پڑھتی تھی کبھی کبھی کوئی جگنو الکھ جگاتا تھا کبھی کبھی کوئی طائر ہوا سے لڑتا تھا کبھی کبھی کوئی پرچھائیں چیخ پڑتی تھی اور اس کے بعد مری آنکھ کھل گئی ...